Technology

Ads

Most Popular

Saturday, 13 October 2018

دیس میں پردیس مظلوم روھنگیا مسلم

 

(سید حسین موسوی)

اگرچہ اقوام عالم کی تاریخ مسلمانوں کے کشت و خون کی داستان سے بھری پڑی ہے لیکن روھنگیا مسلمانوں کی تاریخ کچھ انوکھی سی ہے۔ روھنگیا برما (میانمار) کے صوبہ ارکان کی مسلم کمیونٹی کا نام ہے، ارکان 1984ء تک ایک آزاداسلامی ریاست تھی جس پر برما کے قابض حکمران بودوپھیہ نے جبراً قبضہ کیا اور برما میں ضم کر دیا جو کہ اب برما (میانمار) کا مسلم اکثریتی صوبہ ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد تقریباً (70) ستر فیصد ہے۔ یہاں اسلام عرب تاجروں کے ذریعے پھیلا اور اس کے آثار 1050ء سے ملتے ہیں، برما ( نیا نام میانمار) میں مذھبی اعتبار سے بدھ مت سب سے بڑی آبادی ہے، مہاتما بدھ کو دنیا کاسب سے بڑا امن کا پیامبر اور عدم تشدد فلسفے کا داعی کہا جاتا ہے۔ ان کے نظریے کے مطابق کسی جانور کو مارنا ایسے ہی ہے جیسے کسی انسان کو قتل کیا ہو، مگر بدبختی سے ان کا یہ فلسفہ روھنگیا مسلمانوں کی نسبت اُلٹ نظر آتا ہے۔

روھنگیا مسلم آج کی اس صدی میں بھی اپنے ہی دیس میں پردیس کی زندگی گزار نے پر مجبور ہے۔ ان کے پاس قومی شناخت سمیت بنیادی انسانی حقوق میں سے کوئی چیز میسر نہیں۔ انتہائی غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سے نہ ختم ہونے والی قتل وغارت گری کا شکار ہے۔ ذرائع کے مطابق روھنگیا مسلمانوں پر جانور ذبح کرنے پر پابندی ہے، حتیٰ کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی سنت ابراھیمی پر عمل کرتے ہوے اللہ کی راہ میں قربانی بھی نہیں دے سکتے۔ ماضی میں بھی ایسی پابندیاں لگتی رہتی تھی اور مسلمانوں کو بے جا تنگ کرتے رہتے تھے۔ 1782ء میں اس وقت کے بادشاہ” بودھاپایہ” نے اس حد تک جسارت کی کہ پورے علاقے کے مسلمان علماء کو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا اور انکار پر ان سب کو قتل کر دیا گیا۔ برما کی تاریخ میں اس المناک واقعے کے بعد ایک عبرتناک معجزہ رونما ہوا وہ یہ کہ سات
دن تک برما کی سرزمین پر سورج طلوع نہیں ہوا، بعد میں بادشاہ نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا اور مسلمانوں سے معافی بھی مانگی۔ مگر نہیں معلوم اتنی واضح اور صریح نشانیوں کے ظاہر ہونے کے باوجود برمی حکمران کو ہوش کیوں نہیں آتا۔

برمی مسلمانوں کی مظلومیت کی داستانیں ہر دور میں ایک دوسرے سے مختلف ملتی ہیں، یہاں کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہتی رہی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 1982ء میں کم وبیش ایک لاکھ مسلمان شھید ہوئے اور تقریباً 20 لاکھ سے زائد مسلمان بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت کی طرف ہجرت کر گئے، اسی طرح قتل وغارت کا یہ سلسلہ آگے چلتا گیا، پھر 15 مئی سے 12 جولائی 2001ء کے درمیان بدھوں نے ایک مسجد پر حملہ کر کے عبادت میں مصروف نمازیوں کو قتل کر دیا اور اس فساد کے نتیجے میں گیارہ (11) مساجد شھید، تقریباً 400 سے زائد گھر نذر آتش اور کم وبیش 200 مسلمانوں کو شھید کر دیا گیا۔ برما پر 1962ء سے لے کر 2010ء تک فوجی حکومت کرتے رہے۔ 2011ء میں میانمار میں ایک بار پھر جمہوری حکومت نے قدم رکھا اور آمریت کا دور ختم ہوا۔ اس دوران روھنگیا مسلمانوں نے اپنے حقوق کے لیے ایک بار پھر آواز اٹھانا شروع کی لیکن اس بار بھی بڑی سختی کے ساتھ ان کی آواز دبا دی گئی، پھر 25 اگست 2017ء کو برمی فوج مسلم آبادیوں میں داخل ہوئی اور آپریشن کے نام پر قتل وغارت شروع کی گئی اور ایک ہفتے کے اندر تیس سے چالیس ہزار مسلمان جن میں عمر رسیدہ افراد سے لے شیر خوار بچوں تک کو بے دردی سے شھید کر دیا گیا اور اب بھی یہ سلسلہ نہیں رکا۔

ستم بالائے ستم تو یہ ہے ان مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے لیے نہ مسلمان ملک آگے آئے ہیں اور نہ اقوام متحدہ کا امن مشن اور عجب تو یہ ہے نہ ہی برمی حکومت کی طرف سے بھی کسی کو روھنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے آنے کی اجازت ہے۔ یہ اپنے ہی دیس میں پردیس اور غریب الوطنی میں مارے جا رہے ہیں۔ آخرکار یہ مظلوم مسلمان جائیں تو کہاں جائیں، اپنے ملک میں رہنے نہیں دیا جا رہا ہمسایہ ممالک پناہ نہیں دے رہے؟ اطلاعات کے مطابق کثیر تعداد میں تارکین وطن دوسرے ملکوں کا رخ کر رہے لیکن ان ممالک کے پناہ دینے سے انکار کے باعث سمندر کی لہروں کے نذر ہو گئے اور غریب ماؤں کی بانہوں میں ہی ان کے لخت جگر نے بلکتے بلکتے پانی میں ہی دم توڑ دیا۔ خدا کرے مسلم حکمرانوں کے کانوں تک ان مظلوم ماؤں بہنوں کی آوازیں بھی پہنچیں تا کہ ان کی داد رسی کے لیے نکلیں۔ خداوند عالم تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے دکھ درد سمجھنے اور آپس میں اتفاق و اتحاد کی توفیق دے۔ آمین۔

The post دیس میں پردیس مظلوم روھنگیا مسلم appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.



from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2A9LW0l
via IFTTT

No comments:
Write komentar