Technology

Ads

Most Popular

Wednesday, 24 October 2018

عرب کے سرکش اونٹ کی آخری کروٹ

 

(شاہد کمال)
اگر محمد بن سلمان نے ماضی کے عبرتناک واقعات سے استفادہ نہیں کیا تو اس بار انھیں بھی ان کی سلطنت کے جاہ و جلال کے ساتھ استعماری طاقتیں ہمیشہ کے لئے خاک میں ملا دیں گی اور عرب کے عربتانک واقعات کے باب میں ایک اور باب کا اضافہ ہو جائے گا۔

دور اندیش افراد کی نگاہیں مستقبل میں زمانے کی کج رفتاری سے رونما ہونے والے واقعات کو بآسانی درک کر لیتی ہیں اور ان کے کانوں کی بصیرت زود ہنگام وقت کی آہٹ کو بھی محسوس کرنے سے قاصر نہیں ہوتیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے جس کا آپ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ قدرت نے یہ صلاحیت صرف انسانوں کو ہی ودیعت نہیں کی بلکہ بعض جانوروں کو بھی مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کے ادارک کی بھر پور صلاحیت عطا کی ہے۔ جس کا تجزیہ علم الحیوان کے ماہرین نے کیا ہے۔

لیکن انسانوں کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی اپنے ناگزیر عمل کے عبرتناک انجام سے شعوری طور سے اعراض کرتا ہے۔ خاص طور پر سیاست مدار افراد جن کے ہاتھوں میں کسی ملک کی باگ ڈور ہوتی ہے یا کسی ایسے ملک کا مطلق العنان بادشاہ جو اپنے ملک کے عوام پر براہ راست حکومت کرنے کا حق جدی پشتی سمجھتا ہو۔ اس لئے کہ حکومت کا نشہ اور دولت کا غرور جب انسان کے دماغ میں حلول کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کی عقل پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں عقل اس کی زبان و فرمان کے طابع ہو جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کی منہ زور خواہشیں سرکشی کی صورت میں تجاوز و تصرف کو اپنے ماتحت پر روا گرداننے لگتی ہیں۔ اس کی مثال کے لئے ہم دنیا کی سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان کی برسر اقتدار حکومت کا مجموعی طور سے تجزیہ کر سکتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے مستقبل کے رخ کو آسمانوں کی سیاحت اور مریخ و سیارگان افلاک سے موڑ کر جنگل کی ہزاروں سالہ تہذیب کی طرف لیجانے کی کوشش میں منہمک ہے۔ اب اس کا منطقی انجام کیا ہو گا یہ اہل سیاست تو نہیں لیکن صاحبان علم و اہل بصیرت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب جمہوریت سے چلنی والی عارضی حکومتوں کا یہ عالم ہے تو وہ حکومتیں جنھیں وراثت میں اپنے باپ دادا سے ملی ہوں ان کے نخوت و غرور کا کیا عالم ہو گا۔ ایسے حکمرانوں کی نظر میں عوام کی حیثیت ایک جانور سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایسے حکمرانوں کی آزادانہ روش اور ملک کے عوامی حقوق اور ان کے جبر و استبداد کے خلاف کوئی آزاد صحافی یا دانشور اپنے قلم کے ذریعہ ان کی خودسرانہ روش پر تنقید کرتا ہے، تو اس کا انجام سوائے موت کے اور کچھ نہیں ہوتا۔

سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے آزاد صحافی جمال خاشقجی جن کا قتل استبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے اشارے پر بڑے بیہمانہ انداز سے کر دیا گیا، جن کا تذکرہ اس وقت عالمی میڈیا میں گردش کر رہا ہے۔ ابھی تک ان کی گمشدہ لاش کے باقیات کی تلاش جاری ہے۔ جمال خاشقجی کے قاتلوں کی استنبول سعودی قونصیلٹ میں ہنگامی آمد و رفت سے اس بات کا انکشاف ہو چکا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل میں کون لوگ شامل تھے اور اس واردات کے انجام دہی اور اس کے تانے بانے تیار کرنے والا مرکزی کردار کون ہے۔ عالمی میڈیا نے جمال خاشقجی کے قتل میں سعودیہ کے جواں سال ولی عہد محمد بن سلمان کو ہی اس کا ماسٹر مائینڈ قرار دیا ہے لیکن سعودی عرب کی سرپرستی کرنے والے امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس واردات کے بعد میڈیا میں آنے والے مسلسل بیانات میں بڑے تضادات پائے جا رہے ہیں۔ جس سے پوری دنیا کو اس بات کا علم ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کے اس خونی گرداب سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چونکہ اس قتل کے واقعہ کے طشت از بام ہونے کے بعد مختلف ذرایع ابلاغ سے یہ بات موصول ہو رہی ہے کہ محمد بن سلمان نے ترکی کے صدر طیب رجب اردگان کو پانچ ارب ڈالر کی پیشکش کی تھی اور اس کے ساتھ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی یہ پیشکش کی گئی تھی۔ جیسا کہ ساری دنیا کو اس بات کا پتہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ایک بزنس مین شخص ہیں لہذا وہ اس طرح کے کسی موقع کو اپنے ہاتھ سے قطعی جانے نہیں دیں گے۔ حالانکہ انھوں نے وائٹ ہاوس سے دیئے جانے والے ایک بیان میں کہا کہ اگر اس قتل میں سعودی عرب کا ہاتھ ہوا تو ریاض حکومت کو اس کے سخت نتائج کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق محمد بن سلمان کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ عندیہ ایک پر فریب بیان سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ چونکہ اسوقت امریکہ کی پوری توجہ سعودی عرب کے معدنی ذخائر اور اس کی دولت پر ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس واقعہ کے پس پشت خود امریکہ بھی شامل ہو، چونکہ وہ اس طرح کی سازش کے ذریعہ سعودی عرب کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور موٹی رقم وصول کرنے کا اسے بہترین موقع سمجھتے ہوں، اس امکان سے انصراف نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ شام، عراق اور یمن میں امریکہ اور اسرائیل کی سرپرستی میں برپا کی جانے والی جنگ میں نقصان تو صرف اور صرف مسلمانوں کا ہوا، لیکن اس کا بھر پور فائدہ استعماری طاقتوں نے اٹھایا۔

سعودی عرب کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال انتہائی مخدوش حالت میں ہے۔ یہاں کے عوام عدم تحفظ کے شکار ہوچکے ہیں۔ شاہی خاندان کو پہلے ہی دو گروہوں میں تقسیم کیا جا چکا ہے۔ سعودی عرب میں رہنی والے اقلیتی طبقے کو دیوار سے لگانے کی کوشش جاری ہے۔ جیسا کہ القطیف شہر کو سعودی حکومت کے جارح اور سفاک فوجی اہلکاروں نے اپنے ظلم و تشدد کا ہدف بنایا ہوا ہے۔ فی الحال سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان امریکہ کے چشم ابرو کی جنبش پر اپنے پورے وجود کے ساتھ رقص کر رہے ہیں۔ شاید انھوں نے اس سے پہلے بعض عرب ممالک کے حکمرانوں کے عبرتناک انجام سے کوئی سبق نہیں لیا۔ اگر محمد بن سلمان نے ماضی کے عبرتناک واقعات سے استفادہ نہیں کیا تو اس بار انھیں بھی ان کی سلطنت کے جاہ و جلال کے ساتھ استعماری طاقتیں ہمیشہ کے لئے خاک میں ملا دیں گی اور عرب کے عربتانک واقعات کے باب میں ایک اور باب کا اضافہ ہو جائے گا۔ دنیا کے عظیم مفکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’حکومت کفر کے ساتھ تو کی جا سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں‘‘۔ بشکریہ ابنا نیوز

The post عرب کے سرکش اونٹ کی آخری کروٹ appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.



from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2PZbrGQ
via IFTTT

No comments:
Write komentar