Technology

Ads

Most Popular

Monday, 22 October 2018

صیہونی قوتوں کے نرغے میں پستے فلسطینی

 

(وقار اسلم)
گزشتہ سے پیوستہ
بین الاقوامی قوانین اور ریپبلکن اور ڈیمو کریٹک دونوں ہی انتظامیہ کی پالیسیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ مغربی کنارہ کے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل نو آبادیوں کی مسلسل حمایت کرتے رہے ہیں ۔ان علاقوں پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے دوران، اردن سے چھین کرقبضہ کیا تھا۔ صرف یہی نہیں، فرایڈ مین ان فلسطینی زمینوں پر اسرائیل کے قبضہ کی حمایت کرتے ہیں جس پر فلسطینی عوام اپنی علیحدہ ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ فرائڈ مین کے انتہا پسندانہ رویہ کا پتہ اس بات سے بھی لگتا ہے کہ وہ تل ابیب کے بجائے امریکی سفارت خانہ، یروشلم (بیت المقدس) میں قائم کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔ جسے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب رہے حالانکہ گزشتہ 68 سال سے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ امریکی سفارت خانہ بھی تل ابیب میں ہی واقع رہا تھا۔ اسرائیل اور فلسطین دونوں ہی کا یروشلم پر دعویٰ ہے۔ دونوں ہی اس تاریخی جگہ کو اپنا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔ جہاں مسلمانوں عیسائیوں اور یہودیوں کے مقدس مقامات ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی امریکی سفارت خانہ کو یروشلم منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ایسی بات نہیں کہ اس طرح کا وعدہ صرف ٹرمپ ہی نے کیا تھا بلکہ اپنے اپنے پہلے دور اقتدار کے لئے انتخابی مہم کے دوران، بل کلنٹن اور جارج ڈبلیو بش نے بھی امریکی سفارت خانہ کو یروشلم منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن صدر منتخب ہوتے ہی ان دونوں رہنماؤں نے اپنے اس خیال کو ترک کر دیا تھا کیونکہ انہیں احساس ہو گیا تھا کہ اس طرح کے سنسی خیز علامتی رویے سے عربوں کے غصے میں مزید اضافہ ہو گا اور خطے میں امن کی کوششوں کو سخت دھچکا لگے گا لیکن ٹرمپ نے ایسا کر کے دکھایا۔

حسب توقع عرب رہنماؤں نے امریکہ کے صدر کے اس فیصلہ اور بنائے گئے امریکی سفیر پر شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ فلسطین کے سابق چیف مذاکرات کا ر اور نمایاں ذمہ داراصائب عریقات نے صاف لفظوں میں خبردارکیا تھا کہ اگر مسٹر ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے وعدے پرعمل کیا تو خطے میں امن اپنی موت مر جائے گا اور یہ اقدام اسرائیل کے ساتھ امن کے کسی بھی امکان کو برباد کر دے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بیت المقدس ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق حتمی صورت حال سے ہے اور اس پر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات ہوں گے کیونکہ فلسطینی بھی اسے مستقبل میں اپنی خود مختار ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے امام و خطیب الشیخ عکرمہ صبری نے بھی ڈیوڈ فرائڈ مین کے تقرر اور امریکی سفارت خانہ کی یروشلم منتقلی کے اعلان پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے کھلا اعلان جنگ قرار دیا تھا۔ الشیخ عکرمہ صبری نے با ضابطہ یہ اعلان کیا کہ یہ فلسطینیوں، عرب ممالک اور عالم اسلا م کیخلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس دیرینہ اور حساس ترین مسئلہ پر کئی دہائیوں سے جاری امریکی پالیسی ختم ہو جائے گی۔ عالم اسلام میں غم و غصے کے جذبات بھڑک جائیں گے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا شدید ردعمل آیا۔ اس اقدام کی بھر پور مذمت سامنے آئی پر بات مذمت تک محدود رہی۔ مقبوضہ اراضی پر قائم بستیوں کو اسرائیل میں شامل کرنا ظلم اور ناہنجاری کے سِوا کچھ نہیں۔

یہ اعلان اسرائیل فلسطین مسئلہ کے حوالے سے دیرینہ امریکی پالیسی میں تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت تھا جس کی دلیل عملی انداز میں اسے لاگو کرنے سے ملی۔ فرائڈ مین نے بھی کہا ہے کہ ’’میں اس ذمہ داری کو مرحلہ وار سرانجام دوں گا۔ یاد رہے کہ امریکن الیکشن سے اسرائیل کا گہرا تعلق ہے اس وجہ سے جارج ڈبلیو بش اور بارک اوبامہ نے بھی اسرائیل کے معاملے کو انتخابی مہم کا حصہ بنایا، جارج ڈبلیو بش تو اسرائیلی یہودیوں کو چکر دینے میں کامیاب ہو گئے تھے تاہم اوبامہ سے اسرائیلی حکومت کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس نے اسرائیلی وزیر اعظم کو باضابطہ درخواست کی کہ صدر اوبامہ اسرائیلی دورہ پر آنا چاہتے ہیں جس کے جواب میں اسرائیلی پرائم منسٹر سیکرٹری ایٹ نے جواب بھجوایا کہ اگلے ایک سال تک وزیر اعظم کا شیڈول سخت ہے ایک سال کے بعد آپ کی درخواست پر غور کیا جائے گا کہ صدر اوبامہ کو اسرائیل میں سرکاری دورہ کی اجازت دی جائیں کہ نہیں جو بھی فیصلہ ہو گا وائٹ ہاؤس کو اس سے اگاہ کیا جائیگا۔ یہ اعلان عالمی معاہدوں بین الاقوامی قوانین اورفلسطینیوں کے مسلمہ حقوق کی سنگین پامالی ہے۔ پوری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ بیت المقدس پر اسرائیل کا کوئی حق نہیں اورغیر قانونی ہے۔ اس بات میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی کہ امریکی، فلسطینوں کے بنیادی اور موروثی حقوق کی سودے بازی کی سازش کا مرتکب ہو رہا ہے۔ درحقیقت امریکی سفارت خانہ کی یروشلم منتقلی بیت المقدس کو یہودیوں کی را جدھانی تسلیم کرنے کے مترادف تھا، دسمبر 2017 ء میں امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کر لیا جسے اقوام متحدہ کی قرارداد نے کالعدم قرار دیا اور غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے اسے اس مقدس شہر پر فلسطین کا حق ساقط کرنے کی سازش قرار دیا۔ یہ بات ملحوظ نظر رہے کہ فلسطینی ریاست کے حوالے سے امریکی حمایت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات 2014ء میں ناکام ہو گئے تھے اس کے بعد یہ سلسلہ دوبارہ آہستگی سے وارفتہ ہوا لیکن دوغلے بیانات کی بجائے اس کا حصول کچھ نہ ہوا ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل کو بڑی قیمت ادا کرنی ہو گی تو اس پر ان کا قومی سلامتی کا مشیر جان بولٹن یو ٹرن لے گیا۔ نکی ہیلی جو اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رہی اسے بھی شدید تنقید کے سامنے کے بعد مستعفی ہونا پڑا کیونکہ وہ اسرائیل کی بے جا حمایت کرتی نظر آ رہی تھی۔ ٹرمپ نے ظاہر کر دیا ہے کہ مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے وہ انتہائی غیر سنجیدہ ہیں۔

The post صیہونی قوتوں کے نرغے میں پستے فلسطینی appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.



from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2EBUqBx
via IFTTT

No comments:
Write komentar