(محمد اسلم خان)
جال خشوگی آل سعود کا مشیر تھا شطرنج کا ایسا کھلاڑی تھا جو شاہی خاندان کی بچھائی بساط پر آل سعود کے مخالفین کو شہ مات دیتا رہا۔ اسامہ بن لادن سے لیکر ملا عمر تک سب اس کے منتظر رہتے تھے وہ 7 سٹار صحافی تھا امریکہ میں سعودی سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا ہے کہ جمال میرا دوست تھا رابطے میں رہتا تھا۔ جمال خشوگی پہلے واشنگٹن کے قونصل خانے گیا تھا وہاں سے اسے ترکی کی راہ دکھائی گئی جہاں وہ استنبول کے سعودی قونصل خانے سے لاپتہ ہو گیا، چند دن بعد سعودی عرب نے جمال کے قتل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسامہ بن دلان اور شاہی خاندان میں مصالحت کرانے، انٹیلی جنس کرنے اور شاہی خاندان کا فرد نہ ہونے کے باوجود اندر کے راز جاننے والا خشوگی آل سعود کے لئے گھر کا چراغ ثابت ہوا ہے۔ جمال خشوگی مدینہ منورہ میں پیدا ہونے اگلے جہان چلا گیا۔
وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید آل نہیان نے خشوگی قتل کیس سے متعلق سچائی جاننے کے لیے شاہ سلمان کی کوششوں اور دلچسپی کو سراہا ہے اور منصفانہ اور قانونی احتساب پر زور دیا ہے۔ مملکت سعودی عرب کی نمائندگی اس کی قیادت کرتی ہے اور یہ انصاف اور شفافیت پر مبنی اداروں کی ریاست ہے۔ خشوگی کیس کی تحقیقات کے بعد شاہی فرامین اور اقدامات قانون اور انصاف کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے قانونی اقدار اور اصولوں کی تائید کرتے ہیں‘‘۔ ’’بحرین نے سرکاری بیان میں سعودی شاہ کے فرامین اور فیصلوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب بدستور انصاف، اصولوں اور اخلاقی قدروں کی ریاست رہے گا‘‘۔ ’’مصر نے بھی شاہ سلمان کے فیصلہ کن اور دلیرانہ اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقات سے سچ سامنے آئے گا‘‘۔ فلسطین، جیبوتی اور ’’یمن‘‘ کی حکومتوں نے بھی سعودی بیان کی تائید کی ’’رابطہ عالمِ
اسلامی‘‘ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی شاہی فرمان کی تائید کی۔ ’’شاہی فرامین‘‘ کے عنوان سے سامنے آنے والے اقدامات میں بتایا گیا کہ ’’سعودی پراسیکیوٹر نے جمعہ کو ابتدائی تحقیقات کے بعد جمال خشوگی کی موت کا اعلان کیا اور کہا تھا کہ ترکی کے شہر استنبول میں دو ہفتے قبل ہاتھا پائی اور تشدد کے نتیجے میں ان کی موت ہوئی تھی۔ اس واقعے میں 18 سعودی شہریوں کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ یہ تمام افراد اس وقت زیر حراست ہیں۔ انھیں جمال خشوگی کی موت اور اس کو چھپانے کا ذمے دار قرار دیا جا رہا ہے‘‘۔ ’’اس اعلان کے بعد شاہی دیوان کے مشیر سعود القحطانی اور انٹیلی جنس کے نائب سربراہ جنرل احمد العسیری کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے زیر نگرانی جنرل انٹیلی جنس ایجنسی کی کمان کی تنظیم نو کا حکم دیا ہے اور شاہی فرمان کے ذریعے انٹیلی جنس ایجنسی میں کام کرنے والے متعدد افسروں کو برطرف کر دیا ہے‘‘۔
سعودی عرب کے وزیر انصاف اور سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین شیخ ڈاکٹر ولید بن محمد الصمعانی نے بیان میں کہا کہ ’’عدالتوں کو جمال خشوگی کیس کی سماعت میں مکمل آزادی ہو گی۔ تمام ضروری ضابطوں کی تکمیل کے بعد اس کی سماعت کا آغاز کیا جائے گا۔ سعودی عرب میں عدلیہ کا ادارہ اسلامی قانون کے اصولوں اور عدل کی اقدار کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا اور مملکت سعودی عرب بھی ان ہی اصولوں ، اقدار اور شریعت کے تقاضوں کے نفاذ کو ملحوظ رکھ کر قائم کی گئی ہے ’’سعودی عرب کو میڈیا کے ذرائع سے جارحانہ کردار کا مظاہرہ کرنے والوں کے ذریعے عدم استحکام کا شکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسے لوگ پیشہ واریت کے حامل ہیں اور نہ ان کی کوئی ساکھ ہے۔‘‘
ترکی کے وزیر خارجہ مولود جاویش اوگلو کا کہنا ہے کہ ’’جمال خشوگی سے متعلق ریکارڈنگ کسی دوسرے فریق کو دی اور نہ ہی دیں گے۔‘‘ یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ ریکارڈنگ ترکی سے مانگ رہے تھے۔ جدید ٹیکنالوجی کا شکریہ کہ انسانوں کے جرم کی گواہی اب آلات دے رہے ہیں۔ جمال خشوگی کی سمارٹ آئی فون والی ایپل واچ ان کے موبائل سے منسلک تھی جو قونصل خانے کے باہر ان کی متوقع اہلیہ کے پاس تھا۔ جب خشوگی کو قونصل جنرل کے کمرے کے میز پر لٹا کرتشدد کیا جا رہا تھا تو یہ تمام کارروائی مقتول کے ہاتھ پر بندھی ان کی جدید گھڑی کے ذریعے ریکارڈ ہو رہی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت خشوگی کیس سے متعلق جاری تحقیقات مکمل شفافیت کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھے گی۔ سعودی عرب کے پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا ہے کہ ’’قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد وہاں موجود افراد اور خشوگی کے درمیان کسی بات پر تنازع پیدا ہوا۔ اس پر ان میں ہاتھا پائی ہوئی جس کے نتیجے میں سعودی شہری جمال خشوگی مارے گئے‘‘۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمال خشوگی حجازی کے نام سے جانے جانیوالا اس صحافی شاہی خاندان پر تنقید کرنا اور یمن میں جاری خانہ جنگی کے خلاف تھا۔ ستمبر2017ء میں اس نے خود ساختہ جلاوطنی اختیارکر لی۔ سعودی عرب کی پالیسیوں پر اس طرح کی تنقید کرنے والوں کی کمی نہیں۔ خشوگی بھی ایسے لوگوں میں سے ایک تھا اور یہ
کوئی ایسا انسان نہیں تھا جس سے بادشاہت کو کسی قسم کا بھی خطرہ ہوتا۔ وہ ’العرب نیوزچینل‘ کا ایڈیٹر انچیف اور جنرل مینیجر، سعودی اخبار الوطن کا مدیر بھی رہا۔ خشوگی 13 اکتوبر 1958 کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوا۔ اس کے دادا محمد خشوگی ترکی النسل تھا جنہوں نے سعودی خاتون سے شادی کی۔ یہ کوئی عام شخص نہ تھا بلکہ شاہ عبدالعزیز کا ذاتی معالج تھا۔ جمال خشوگی ایران اسلحہ ڈیل میں شہرت پانے والے سعودی عرب کے نامی گرامی اسلحہ ڈیلر عدنان خشوگی کا بھتیجا ہے۔ یہ دودی الفائد کا فرسٹ کزن ہے جو شہزادی ڈیانا کے قرب کی وجہ سے مشہور ہوا اور پھر دونوں ہی پیرس میں کار حادثے میں ہلاک ہوئے۔ جمال خشوگی نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں امریکہ کی انڈیانا سٹیٹ یونیورسٹی سے 1982ء میں ڈگری لی۔ وہ کتاب گھروں سے ہوتا ہوا افغانستان، الجزائر، کویت، سوڈان اور مشرق وسطی میں غیرملکی صحافی کے طور پر معروف ہوا۔ الشرق الاوسط، المجلہ اور المسلمون جیسے مشہور عرب صحافی اداروں کے ساتھ وابستہ رہا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے سعودی انٹیلی جنس ایجنسی اور افغانستان میں موجودگی کے وقت امریکہ کے لئے کام کیا۔
جمال خشوگی کا 1980 سے 1990 کے دوران افغانستان میں اسامہ بن لادن سے رابطہ رہا اور اس نے متعدد بار اسامہ بن لادن کے انٹرویو کئے۔ اکثر تورا بورا میں ان کی ملاقاتیں رہیں۔ ایک ملاقات اس کی سوڈان میں بھی اسامہ بن لادن سے ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی انٹیلی جنس ایجنسی نے اسے اسامہ بن لادن پر اثرانداز ہونے کے لئے استعمال کیا کہ وہ سعودی شاہی خاندان سے صلح کر لے اور شاہی خاندان کی مخالفت ترک کر دے۔ یہ دعویٰ بھی سامنے آیا تھا کہ خشوگی نے اسامہ بن لادن کو تشدد ترک کرنے پر قائل کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ خشوگی وہ واحد شخص ہے جو سعودی شاہی خاندان کا حصہ نہ ہوتے ہوئے القاعدہ کے ساتھ ہونے والے اس کے راز و نیاز کا امین تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ستمبر11 کے امریکہ میں ہونے والے المشہور ’نائن الیون‘ کے بارے میں بھی اس کے سینے میں راز تھے۔ امریکہ اور دنیا کو ہلا اور دہلا دینے والے اس واقعے کے بعد خشوگی نے لکھا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کے اثرات سے بچانا ہو گا جس طرح 15 سعودی اس کے زیراثر آئے کیونکہ یہ عمل سیدھی جہنم کی راہ ہے۔ وہ امریکہ میں سعودی سفیر کے طور پر شہزادہ الفیصل جب ذمہ داریاں انجام دے رہا تھا تو خشوگی نے میڈیا معاون کے طور پر اس کے ساتھ کام کیا تھا۔ جمال خشوگی واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ اس کے قتل کے بعد واشنگٹن پوسٹ نے اس کا آخری کالم بھی شائع کر دیا ہے جو اس نے لکھ رکھا تھا لیکن شائع نہیں ہوا تھا۔ عالمی میڈیا بتا رہا ہے کہ ’’خشوگی اپنی ترک منگیتر کے لیے کاغذ بنوانے استنبول میں سعودی قونصلیٹ گیا تھا جو اس کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا‘‘۔
خشوگی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ سات منٹ میں اس کی ہلاکت ہوئی۔ جمال خشوگی کی منگیتر نے قرآن حکیم کی آیت ٹویٹ میں لکھی کہ جس کا مفہوم یہ تھا کہ جس نے دانستہ کسی کا قتل کیا، تو قاتل کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ خشوگی کے دوست نکولس کرسٹوف نے نیویارک ٹائمز میں اپنے کالم میں متعدد مطالبات کئے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اس ساری صورتحال میں مسلمان ممالک کہاں کھڑے ہیں؟
The post سعودی صحافی کا ترکی میں قتل appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.
from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2EI72XN
via IFTTT


No comments:
Write komentar