Technology

Ads

Most Popular

Saturday, 13 October 2018

سعودی-امریکی موجودہ بگاڑ

 

(نصرت جاوید)
امریکی صدر منتخب ہو جانے کے پہلے روز سے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ہی ملک کے میڈیا کو ملک دشمن قرار دے رہا ہے۔ کئی معروف صحافیوں اور اینکروں کو جعلی اور من گھڑت خبریں پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ ایسے شخص سے مجھے ہرگز امید نہ تھی کہ وہ کسی دوسرے ملک میں آزادی صحافت نامی چڑیا کے بارے میں پریشان ہو گا۔

ویسے بھی گزشتہ ماہ کے آغاز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے واضح الفاظ میں اپنے America First والے تصور کو دہرایا۔ اس تصور کا واضح ترین پیغام یہ ہے کہ آج کی دنیا میں واحد سپرطاقت سمجھا جانے والا ملک کسی اور ملک کے اندرونی معاملات میں جمہوریت اور آزادی رائے وغیرہ کے نام پر مداخلت کو تیار نہیں۔

ایمان داری کی بات ہے کہ مجھے ٹرمپ کی اس ضمن میں صاف گوئی بہت پسند آئی۔ ہم پاکستانیوں نے اپنی تاریخ کے تناظر میں امریکہ کو جمہوری نظام کا پرچارک کبھی شمار ہی نہیں کیا۔ ہمارے تین فوجی آمروں، ایوب خان، ضیاء اور جنرل مشرف نے تین بار اوسطاً دس برس تک اس ملک میں بادشاہوں کی طرح راج کیا۔ یہ تینوں امریکہ کے بہت لاڈلے رہے۔

ایوب خان نے امریکہ کے ساتھ مل کر کمیونسٹ روس کے خلاف محاذ بنایا۔ جنرل ضیاء کے دور میں اسے افغانستان میں شکست دی اور مشرف صاحب کے زمانے میں نائن الیون کے ذمہ دار ٹھہرائے دہشت گردوں کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑی۔ ان تینوں ادوار میں پاکستان کی صحافت اور سیاسی جماعتوں کو انگریزی محاورے والے گاجر اور چھڑی کے ملاپ سے قابو میں رکھا گیا۔

دنیا اور بذات ہی امریکہ میں لیکن سادہ لوح افراد کی ایک کثیر تعداد اس گمان میں مبتلا رہی کہ امریکہ محض ایک ملک ہی نہیں دنیا بھر میں آزادی اظہار کا محافظ اور چمپئن بھی ہے۔ وہ آمرانہ حکومتوں سے فاصلہ رکھتا ہے۔ ان کی مدد سے گریز کرتا ہے اور جب بھی وہ اپنے عوام کو شدید جبر کا نشانہ بنائیں تو ان کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرتا ہے۔

ٹرمپ وائٹ ہاؤس پہنچ جانے کے بعد اس خوش فہمی کو بہت کھرے انداز میں رد کرتا نظر آیا۔ دل ہی دل میں اس کی صاف گوئی کے بارے میں ذاتی طورپر میں بہت خوش ہوا۔

سعودی عرب نے کبھی خود کو جمہوریت کہلوانے کا تردد نہیں کیا۔ وہاں کئی دہائیوں سے شاہی نظام لاگو ہے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہر امریکی حکومت نے اس ملک کی تیل کی پیداوار کے حوالے سے قائم اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہاں کے سیاسی نظام سے گزارہ کرنے کی روش اپنائی۔

نام نہاد ”عرب بہار“ سے متاثر ہوا صدر اوبامہ اگرچہ اس روئیے سے رجوع کرنے پر تھوڑا مجبور ہوا۔ سعودی اس وجہ سے بہت ناراض ہو گئے۔ ایران کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کی امریکی کاوشوں نے ان کے غصے کو مزید بھڑکایا۔ شاید اوبامہ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے ٹرمپ نے اپنے انتخاب کے بعد پہلا دورہ سعودی عرب کا رکھا۔ امریکی، سعودی دوبارہ بھائی بھائی ہو گئے۔

اس محبت میں مزید گہرائی شاہزادہ محمد بن سلمان کیبطور ایک طاقت ور ولی عہد ابھرنے کی وجہ سے آئی۔ اپنے ملک کو ”جدید“ بنانے کے نام پر نوجوان شہزادے نے کچھ ایسے اقدامات اٹھائے جن کی پورے امریکہ میں واہ واہ ہو گئی۔ یہ توقع باندھ لی گئی کہ اپنے اقدامات سے محمد بن سلمان جسے MBS کہا گیا سعودی عرب کو برطانیہ جیسا جمہوری ملک نہ بھی بنا پایا تو کم از کم متحدہ عرب امارات جیسا ”روشن خیال“ ملک ضرور بنا دے گا۔

MBS کا مسلم دُنیا میں ”روشن خیالی“ کی حتمی مثال سمجھ کر خیرمقدم صرف ٹرمپ انتظامیہ ہی نے نہیں کیا۔ اس کے ناقد تصور ہوتے ہوئے تھامس فریڈمین جیسے جید کالم نگاروں نے بھی سعودی عرب جا کر MBS کے طویل انٹرویو کئے اور انہیں قصیدہ گوئی کے انداز میں لکھا۔

امریکی سعودی قربت ہی کی وجہ سے ٹرمپ ایران سے قطع تعلق کرتا نظر آیا۔ ٹرمپ نے تہران کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد ہوئے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اب دنیا کو واضح الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ آئندہ ماہ سے ایران سے تیل خریدنے والے ممالک سے امریکی کمپنیاں اور بینک کوئی واسطہ نہیں رکھیں گی۔

یمن میں جاری جنگ میں سعودی عرب کی معاونت کے بعد اٹھایا یہ فیصلہ یہ عندیہ دے رہا تھا کہ امریکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایران کو عالمی تنہائی کی طرف دھکیل دے گا۔

گزشتہ دو ہفتوں سے لیکن امریکی حکومت اور میڈیا سعودی عرب کو مسلسل شرمندہ کئے چلے جا رہے ہیں۔ آغاز اس کا اس تقریر سے ہوا جس کے ذریعے امریکی صدر نے بہت رعونت سے سعودی بادشاہ کو یاد دلایا کہ امریکی فوجیوں کی مدد کے بغیر وہ اپنے ملک پر دو ہفتوں سے زیادہ حکمران نہیں رہ سکتا۔

ٹرمپ کی اس بدزبانی کا اصل سبب سعودی عرب سے یہ گلہ تھا کہ وہ اپنے تیل کی پیداوار کو بڑھا کر عالمی منڈی کے لئے اس حد تک میسر نہیں کر رہا کہ ایرانی تیل کی وہاں عدم موجودگی کے باوجود فی بیرل تیل کی قیمت 100 ڈالر تک نہ پہنچے۔

ایرانی تیل کے مقاطعے سے عالمی منڈی میں میسر تیل کی قیمت ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گئی تو پاکستان جیسے ممالک کی معیشت کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔ بھارت میں اقتصادی ترقی جمود کا شکار ہو جائے گی۔ حتیٰ کہ یورپ میں فرانس اور جرمنی جیسے ممالک بھی حواس باختہ ہو جائیں گے۔

سعودی عرب سے وافر تیل کی عدم دستیابی کے ہوتے ہوئے ایرانی تیل کو عالمی منڈی سے باہر رکھنے کی کوششیں ہوئیں تو ٹھوس معاشی وجوہات کے سبب دنیا کے غریب، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک یکجا ہو کر اپنی مشکلات کا واحد سبب ٹرمپ کی پالیسیوں کو ٹھہرانا شروع ہو جائیں گے۔

ایک حوالے سے بجائے ایران کے امریکہ عالمی تنہائی کا شکار بن جائے گا۔ لہذا ٹرمپ کی سعودی عرب سے بدزبانی سمجھی جا سکتی ہے۔

مگر معاملہ وہاں ختم نہیں ہوا ہے۔ نیا قضیہ ایک سعودی صحافی کی پراسرار گمشدگی کے بارے میں کھڑا ہو گیا ہے۔ وہ کئی برس سے امریکہ میں بیٹھا واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات کے لئے سعودی حکومت پر تنقیدی کالم لکھ رہا تھا۔

اپنی خود ساختہ جلاوطنی کے دوران مذکورہ صحافی نے ایک ترک خاتون سے تعلقات استوار کئے اور بالآخر اس سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ اپنی شادی کے انتظامات کے سلسلے میں وہ چند ہفتے قبل ترکی آیا اور استنبول میں موجود سعودی قونصل خانے میں اپنے پاسپورٹ کی تجدید کے لئے گیا۔ وہاں جانے کے بعد سے وہ ”غائب“ ہو چکا ہے۔

ترک صدر جس نے بذات خود اپنے ملک کے سینکڑوں صحافیوں کو غداری کے الزامات لگا کر جیلوں میں بند کر رکھا ہے نے یہ الزام لگایا ہے کہ مذکورہ صحافی کو سعودی قونصل خانے میں ”بلا کر مار دیا گیا“۔ اس الزام کو امریکی حکومت نے جو اِن دنوں ترکی کے صدر سے مخاصمانہ ہو چکی ہے فوراً درست مانتے ہوئے سعودی حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے۔

امریکی صدر اور وزیر خارجہ سعودی کالم نگار کی ”بازیابی“ یا اس کے بارے میں حقائق“ جاننے کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ اس تقاضے کی بدولت سعودی عرب پورے امریکی میڈیا کی زد میں ہے۔

میں ہرگز سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ٹرمپ کا اصل مقصد اگر آنے والے دنوں میں ایران کو تنہا کرنا تھا تو سعودی عرب کی اس انداز میں رسوائی کیوں؟

ایک پاکستانی صحافی ہوتے ہوئے میں اس دعویٰ کو تسلیم کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ امریکی میڈیا اور خاص کر ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب جیسے ملکوں میں آزادی صحافت کے بارے میں حقیقی معنوں میں فکر مند ہے۔ امریکی-سعودی معاملات کے موجودہ بگاڑ کی اصل وجوہات یقینا کچھ اور ہیں۔ کاش میں انہیں جان کر آپ کے لئے بیان کر سکتا۔

The post سعودی-امریکی موجودہ بگاڑ appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.



from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2A9M5kp
via IFTTT

No comments:
Write komentar