(مصطفی کمال پاشا)
چند دِن پہلے(27اکتوبر بروز ہفتہ) امریکہ میں واقع ایک یہودی عبادت گاہ میں ایک شخص نے داخل ہو کر فائرنگ کر کے11 یہودیوں کو ہلاک اور بہت سوں کو زخمی کر دیا۔امریکی صدر نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور یہودیوں کے حق میں ایک بھاری بھر کم بیان داغ دیا۔یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہودی امریکہ میں ایک مضبوط اور موثر حیثیت کے مالک ہیں۔ امریکی معیشت اور سیاست میں ان کا کلیدی کردار ہے،بلکہ امریکی معاشی نظام کی تشکیل میں یہودی دماغ مکمل طور پر شامل ہے۔ گزرے 250/300 برسوں کے دوران یہودیوں نے نہ صرف امریکی معیشت اور معاشرت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، بلکہ عیسائی امریکیوں کے مذہبی عقائد کو موڑنے اور آلودہ کرنے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے،
عیسائیوں کی تاریخ کے مطابق بھی، عیسیٰ ابنِ مریم یہودی تھے،یہودیوں کی طرف مبعوث کئے گئے تھے، ان کی تعلیمات اسلامی تھیں، وہ دینِ ابراہیم علیہ السلام کے پرچارک تھے، یہودیوں کے نجات دہندہ کے طور پرآئے تھے،لیکن انہیں یہودیوں نے جھٹلایا۔ ان کی تکذیب کی۔ عیسیٰ ابنِ مریم کی دعوت و تبلیغ کے مخاطب بنی اسرائیل تھے، لیکن انہوں نے نہ صرف انہیں جھٹلایا، بلکہ صلیب پر چڑھا دیا۔یہ سینکڑوں نہیں،ہزاروں برسوں سے تسلیم شدہ حقیقت تھی، جسے یہودیوں نے کچھ اس طرح سے چھپایا، توڑا، مروڑا اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی امریکہ اور برطانیہ، یہودیوں کی پشت پر کھڑا ہے۔ یہودیوں نے بڑے منظم طریقے سے پہلے عیسائیوں کے عقائد کو پراگندہ کیا۔ خالص توحیدی مذہب میں تثلیث کا عقیدہ داخل کیا۔ ہمیں معلوم ہے کہ عیسیٰ ابنِ مریم نے اللہ، خدائے واحد کی طرف بلایا۔ یہودیوں کو ابراہیم، داؤد، سلمان، موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السلام کے خدا کی بندگی اور اطاعت کی طرف دعوت دی۔
قرآن کریم میں یہ باتیں صراحتاً تحریر ہیں۔ قرآن کے مطابق داؤد، موسیٰ اور عیسیٰ اللہ کے پیغامبر اور بندے تھے ۔ توریت، زبور اور انجیل اللہ کے پیغامات پر مشتمل مقدس کتب ہیں، جن میں تحریفات کر دی گئی ہیں۔ یہودیوں نے اپنے دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کے پیغام کو بگاڑا، اس میں مرضی کا مواد شامل کیا گیا۔ انبیاء کی سیرتوں میں تحریف کی اور اس طرح خالصتاً توحیدی مذاہب یہودیت اور عیسائیت میں بدل گئے،جن یہودیوں نے عیسیٰ ابنِ مریم کو پھانسی دی۔ عیسیٰ ابنِ مریم کے پیرو کاروں(عیسائیوں) کو تعذیب و تشدد کا نشانہ بنایا،آج عیسائی انہی یہودیوں کے پشتیاں بنے ہوئے ہیں۔ان کے اشاروں پر رقصاں ہیں۔
برطانیہ عظمیٰ نے عربوں کے سینے پر خنجر کی طرح ریاست اسرائیل تخلیق کر کے اہل حرم کے لئے ایک دردِ سر بنایا۔ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی ریاست کا قیام کسی طور بھی درست اور مبنی برحق نہیں ہے، لیکن عیسائی انگریزوں نے ایسا کیا، پھر اس کے بعد صہیونی امریکیوں نے اس ناجائز ریاست کی پشت پناہی شروع کر دی۔یہودیوں نے عیسائیوں کے عقائد میں نقب تو پہلے ہی لگائی ہوئی تھی،امریکی معیشت اور معاشرت میں بھی ان کے دخل کے باعث یہاں امریکی ریاست میں انہیں خاصی اہمیت حاصل ہو چکی ہے، سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں سٹاک مارکیٹ اور بینکاری نظام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیو یارک سٹاک ایکسچینج نہ صرف امریکہ،بلکہ عالمی کیپیٹل مارکیٹ میں رہنما اور لیڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سٹاک ایکسچینج میں اُتار چڑھاؤ، دُنیا کی سٹاک مارکیٹوں میں اُتار چڑھاؤ کا باعث بنتا ہے۔ نیو یارک سٹاک ایکسچینج پر یہودیوں کا قبضہ ہے، وہ جیسے چاہتے ہیں،اسے چلاتے ہیں۔
یہودی اس کے ذریعے عالمی منڈی میں زلزلہ برپا کر سکتے ہیں۔امریکی معیشت، عالمی معیشت میں انجن کی حیثیت رکھتی ہے،یعنی عالمی معیشت کا رُخ متعین کرنے کے لئے امریکی معیشت مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ یہودی ساہو کار اور سرمایہ کار اس پر چھائے ہوئے ہیں،بلکہ اگر ہم کہیں کہ امریکی معیشت مکمل طور پر ان کی گرفت میں ہے، تو بے جا نہیں ہو گا اس معاشی گرفت کو انہوں نے امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں استعمال کیا ہے۔ ریاست اسرائیل کے قیام سے لے کر ہنوز، آج کے دن تک، اسرائیل کی تعمیر و ترقی اور حفاظت امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی عنصر ہے۔
جیوئش ڈیفنس لیگ(JDL) امریکہ کی ایک طاقتور ترین تنظیم ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ امریکہ کا آئندہ صدر کون ہو گا؟ یہ تنظیم جس امیداوار کے حق میں ہو جائے، وہی امیدوار جیت جاتا ہے۔ امریکہ کی250سالہ تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے، جس سے یہودیوں کی امریکی سیاست پر زبردست گرفت کا پتہ چلتا ہے۔ اسرائیل، یروشلم کو ابدی ریاست اسرائیل کا اٹوٹ انگ کہتا ہے۔ اقوام عالم نے کبھی بھی اسرائیل کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا۔ یروشلم کو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کا مشترکہ شہر قرار دیا گیا ہے، لیکن اسرائیل نے اپنا دارالحکومت وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا تو صرف ٹرمپ کے امریکہ نے ہی اسرائیل کے اس دعوے کو تسلیم کیا،بلکہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے اُٹھا کر یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا۔امریکہ اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل بھی کر چکا ہے اور اسے فنکشنل بھی بنا دیا گیا ہے۔ یہ بھی اسرائیل کی امریکی ریاست پر گرفت کی علامت ہے۔
سلامتی کونسل کے15 میں سے 14ممالک، اس امریکی اقدام کو غیر قانونی بھی قرار دے چکے ہیں، لیکن امریکہ کو اِس بات کی پرواہ نہیں ہے، وہ بڑی یکسوئی کے ساتھ اسرائیل کی تقویت میں لگا ہوا ہے،یہودیوں نے بڑی خوبصورتی اور ذہانت و چالاکی سے عیسائیوں کے عقائد میں بھی ردوبدل کر دیا ہے۔عقیدہ تثلیت ایسی ہی سازشوں کا شاہکار ہے، اس کے علاوہ مسیح کی آمدِ ثانی کے حوالے سے یہودیوں نے انہیں اپنے تابع کر لیا ہے۔عیسائیوں کے عقائد کے مطابق عیسیٰ ابنِ مریم کی آمد ثانی سے قبل ہیکل سلیمانی کی تیسری مرتبہ تعمیر ضروری ہے، یعنی ریاست اسرائیل کی تکمیل، انہی بنیادوں پر ضروری ہے، جن پر یہ ریاست بنی۔
داؤد علیہ السلام اور سلمان علیہ السلام کے ادوارِ حکمرانی میں قائم تھی۔ گویا عیسائی اپنے عقائد کے مطابق اِس بات کے پابند ہیں کہ وہ مسیح کی آمدِ ثانی کے لئے یہودیوں کے تھرڈ ٹیمپل کی تعمیل میں شامل ہوں۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہودی تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر کے لئے یکسو ہیں، انہوں نے یروشلم کو ریاست اسرائیل کا دارالحکومت بنا لیا ہے، آج ریاست اسرائیل ان علاقوں پر مشتمل ہے، جو عہدِ سلمانی میں ریاست اسرائیل میں شامل تھے۔امریکہ کی پوری طاقت، سیاسی، سفارتی اور مالی قوت اسرائیل کے خوابوں کی تعمیر میں لگی ہوئی ہے۔ اہلِ حرم کا قلع قمع کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا چکا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ مکمل طور پر تباہ و برباد کیا جا چکا ہے،خطے میں کوئی ایک بھی عرب ریاست اِس قابل نہیں ہے کہ وہ اسرائیلی حاکمیت کے لئے چیلنج بن سکے۔ حتیٰ کہ اپنا دفاع بھی کر سکے۔
سعودی عرب کی سلامتی کے بارے میں ٹرمپ کا حالیہ بیان کہ ’’سعودی بادشاہ کی حکومت امریکیوں کی وجہ سے قائم ہے‘‘ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ ترکی میں سعودی صحافی کا قتل لاریب سی آئی اے کی سازش ہے جس میں خود سعودی اہلکار شامل ہیں، ابتدأ اس سازش کا مقصد ترکی کو لپیٹنا تھا،لیکن ترکوں کی بالغ نظر قیادت نے یہ سازش کامیاب نہیں ہونے دی اور اُلٹا سعودی عرب اس سازش میں پھنس چکا ہے۔ امریکہ اور دیگر عیسائی مغربی طاقتیں اس کے ذریعے سعودی عرب کی قیادت پر دباؤ بڑھا رہی ہیں،معاملات ہر گز درست سمت میں نہیں جا رہے۔ سعودی پرنس محمد بن سلمان جس انداز میں سعودی معاشرت اور معیشت کو امریکی خواہشات کے مطابق لے کر چل رہے تھے، ان کی کمزوری کھل کر سامنے آ گئی ہے۔
حرمین شریفین کو جس انداز میں مغربیت کا شکار بنایا جا رہا تھا،وہ کسی طور بھی قابلِ تحسین نہیں ہے۔ اِس سے اہلِ حرم میں اور بھی کمزوری پیدا ہوئی ہے۔ سعودی حکمرانی خطرے میں ہے۔ اسرائیل بتدریج بڑی ذہانت کے ساتھ گریٹر اسرائیل کی تعمیر کے لئے قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے،کسی عرب مُلک میں اتنی جرأت اور ہمت نہیں ہے کہ وہ اس کے ناپاک عزائم کی راہ میں کھڑا ہو سکے۔عمان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ اسی کمزوری کی علامت ہے۔’’ اسرائیلی طیارے کی پاکستان آمد کی اطلاعات‘‘ کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ کہیں ہم بھی امریکی خواہشات کے مطابق اسرائیل کے ساتھ قدم ملانے کی پالیسی پر تو گامزن نہیں ہو چکے ہیں،ویسے فکری اعتبار سے یہاں ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ ’’اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے کیا اختلافات ہیں،ہمیں اسے تسلیم کر لینا چاہئے‘‘۔ یہ بات کسی طور بھی درست اور قابلِ عمل نہیں ہے،لیکن ہمارے حکمران شاید اس طرح نہیں سوچتے۔جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکمرانی میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہوئی تھیں اور اب بھی کچھ ایسی ہی باتیں ہو رہی ہیں،لیکن بہت ہی مدھم سروں میں۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔ اللہ خیر کرے۔
The post امریکہ، اسرائیل اور پاکستان:کیا ہو رہا ہے؟ appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.
from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2Q5A0lE
via IFTTT
No comments:
Write komentar