Technology

Ads

Most Popular

Thursday, 1 November 2018

اب مقبوضہ کشمیر کا ہر دن ’’یوم سیاہ‘‘ ہے

 

(خالد بیگ)
مقبوضہ کشمیر میں قابض فوجیوں نے ماضی میں تمام فسطائی و غیر انسانی ہتھکنڈوں کی ناکامی کے بعد نوجوان کشمیریوں کے بے دریغ قتل کو بطور حکمت عملی اختیار کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی دن نہیں گزرتا جب ایک دو نہتے نوجوانوں کو شہید نہ کیا جاتا ہو۔ کسی روز یہ تعداد بڑھ بھی جاتی ہے۔ اس کے باوجود وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتا ہے۔ تاہم بجائے اپنی ناکامیوں کی اصل وجوہات کو سمجھنے کے وہ بضد ہے کہ کشمیریوں کی مرضی کے خلاف اس نے اپنا قبضہ وادی کشمیر پر برقرار رکھنا ہے۔ بھارت کی اس ضد نے مقبوضہ کشمیر کو جہنم میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ انسانی المیہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اب ایک ایسی نسل پروان چڑھ رہی ہے جس میں ہر انفرادی کشمیری بچے کا والد‘ بھائی‘ چچا یا قریبی عزیز بھارتی قابض فوج کی بربریت کا شکار ہو چکا ہے۔ اس بچے کا ہر دن کسی نہ کسی کشمیری کی شہادت پر افسردگی کی حالت میں گزرتا ہے۔ اسے سکول جاتے ہوئے بستوں کی تلاشی کا سامنا ہے کہ کہیں معصوم بچوں کے بستوں کے ذریعے بھارتی فوجی کارروائیوں کی کشمیریوں کی طرف سے عکس بندی کی گئی۔

کارداباں ’’یو ایس بی‘‘ کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہ کی جا رہی ہو کیونکہ انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کی بندش کے باوجود کشمیریوں پر توڑے جانے والے مناظر‘ تصاویر یا ویڈیو کی شکل میں کشمیر سے باہر ان علاقوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں جہاں سے یہ سب سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر دنیا بھر میں بھارت کے لئے مذمت و سبکی کا باعث بنتا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی بھارت کے خلاف آواز بلند کرنے کا موقع ملتا ہے۔ کشمیر کے یہ ننھے بچے نہیں جانتے کہ وہ چھٹی کے بعد واپس جائیں گے تو ان کے محلے یا علاقے میں بھارتی فوج کرفیو لگا کر گھر گھر تلاشی کا ڈھونگ نہیں رچا رہی ہو گی اور وہ کئی گھنٹوں تک بھوکے پیاسے بھارتی فوج کی واپسی کا انتظار کرنے پر مجبور ہونگے یا وہ جب اپنے محلے کی گلی میں پہنچیں گے تو وہاں ان کے اپنے گھر یا دیگر کسی محلے دارکے گھر کسی نوجوان کی شہادت پر کہرام برپا نہیں ہو گا۔ کشمیر کے یہ معصوم بچے جانتے ہیں کہ قابض بھارتی فوج تلاشیوں کے نام پر جب کسی گھر میں داخل ہوتی ہے تو وہ ‘ان کی ماں‘ بہنوں یا دیگر جوان خواتین کے ساتھ کس طرح بداخلاقی سے پیش آتی ہے۔ جس پر گھر میں موجود مرد بھارتی فوجیوں کے ساتھ جھگڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بھارتی فوجی ایسے کشمیریوں کو یا تو کشمیری مجاہدین کا حامی قرار دے کے گرفتار کر کے لے جاتی ہے اور جھگڑا بڑھنے کی صورت میں فائرنگ کر کے مزاحمت کرنے والے نوجوان کو موقع پر ہی گولی مارنے میں دیر نہیں لگاتی۔ جس کے بعد پورا علاقہ احتجاج کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بات بڑھتی ہے تو نتیجہ مزید شہادتوں‘ زخمیوں اور قابض فورس کی طرف سے پیلٹ گن کے بے دردی سے استعمال کی وجہ سے بہت سے کشمیری نوجوان و بچے بینائی سے محروم کر دئیے جاتے ہیں۔

اس طرح کے روز مرہ حالات میں کشمیر میں پروان چڑھنے والے بچوں میں بھارت سے نفرت اور قابض بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھا کر لڑنے کا سبب بن رہے ہیں جس کا ادراک نہ ہی بھارتی حکمرانوں کو ہے نہ ہی مقبوضہ کشمیر سے باہر کی دنیا سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ برصغیر ایک بڑی تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں برہان مظفر وانی جیسے نوجوان طالب علم ہی بھارتی فوج سے لڑنے پر کمر بستہ نہیں ہیں وہاں پی ایچ ڈی سکالرز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری بھی روز روز کے مرنے سے ایک ہی بار مرنے کے لئے بھارتی فوج اور سکیورٹی کے نام پر مقبوضہ کشمیر پر قبضہ بحال رکھنے کے لئے تعینات دیگر فورسز کے خلاف لڑنے پر مجبور ہیں جس کی ابتداء 6 مئی 2018ء کو اسوقت ہوئی جب شوپیاں میں دوران احتجاج بھارتی فوج نے کشمیر یونیورسٹی میں سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر محمد رفیع بھاٹ کو اس کے چار ساتھیوں سمیت مقابلے کے دوران شہید کر دیا۔

پروفیسر رفیع کی شہادت کی خبر پھیلتے ہی پورے ضلع شوپیاں میں احتجاج پھیل گیا جس پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہونے پر بھارتی فوج نے احتجاج کرنے والے کشمیری نوجوانوں پر براہ راست فائر کھول دیا۔ نتیجے میں 5 کشمیری شہید اور 30 زخمی ہو گئے جبکہ پیلٹ گن کے استعمال سے زخمی ہونے والوں کی تعداد 60 سے زیادہ تھی اور آنسو گیس کے نام پر اسرائیل کی طرف سے فراہم کئے گئے زہریلی گیس والے گولوں کی بدولت بیہوش ہونے والوں کی تعداد کا تعین ہی نہیں کیا گیاتھا۔ بھارتی میڈیا میں شوپیاں کے ہسپتال سے آنے والی اطلاعات کی بنیاد پر جاری کی گئی خبروں کے مطابق اس روز سینکڑوں افراد ہسپتال لائے گئے۔ ہسپتالوں میں دوائیاں اور ابتدائی طبی امداد کا سامان ختم ہو گیا۔ زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لئے ایمبولینس کم پڑ گئیں۔ لوگ کندھوں پر‘ پھل فروشوں کی ہاتھ والی ریڑھیوں پر زخمیوں کو ڈال کر ہسپتال پہنچاتے رہے۔ سری نگر میں کشمیر یونیورسٹی خالی کراکر ہوسٹل خالی کرا لئے گئے اور شہر میں کرفیو لگا دیا گیا۔ اس کے باوجود کشمیری کرفیو توڑتے ہوئے باہر نکلے اور اس احتجاج کے دوران بھی 4 کشمیری بھارتی فوجیوں کی فائرنگ کے نتیجے میں شہید ہو گئے اور 19 زخمی ہوئے۔

بھارت کے تمام اخبارات نے مقبوضہ کشمیر میں اتنی زیادہ شہادتوں پر مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت و بھارتی فوج کے کمانڈروں کو یہ کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا کہ بندوق کے بے دریغ استعمال کی بدولت مقبوضہ کشمیر ریت کی طرح بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری پروفیسر رفیع بھارت کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لئے بھارتی فوج اس کے والد کو لے کر آئی لیکن بیٹے نے باپ سے یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی سے کم پر کوئی شرط تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اسی مقصد کے لئے اپنی جان قربان کرنے جا رہا ہے جس کے لئے اس نے اپنے والد سے معافی بھی مانگی۔ بعدازاں پی ایچ ڈی ڈاکٹر منان وانی دوسرا اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری تھا جس نے آزادی کے لئے جان قربان کرنے کو ترجیح دی۔ وہ گیارہ اکتوبر 2018ء کو اس جہان فانی سے رخصت تو ہوا لیکن اس شان سے کہ اب بھارتی فوج سے لڑتے ہوئے موت کو گلے لگانا ہر کشمیری نوجوان کا مقصد بن چکا ہے۔

24 اکتوبر 2018ء کو سری نگر کے علاقے اننت ناگ میں بھارتی فوج نے نیو دہلی کی یونیورسٹی جامعہ کے پروفیسر ڈاکٹر سبزاز صوفی کو اس کے دو ساتھیوں سمیت شہید کر دیا جس پر احتجاج پر قابو پانا بھارتی فوج کے لئے مشکل ہو گیا تو پھر بے دریغ فائرنگ کو بطور حل استعمال کرنے سے مزید 2 کشمیری شہید ہوئے اور یہ تعداد 26 اکتوبر 2018ء کو 10 کشمیریوں کی شہادت تک پہنچ گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں اب بھارتی فوج کے ہاتھوں روزانہ کے حساب سے کشمیریوں کی قتل و غارت گری نے وہاں ہر دن کو یوم سیاہ میں تو بدل ہی دیا ہے لیکن بھارت کے لئے ایک بڑے خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے۔ بھارت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2018ء سے مئی 2018ء تک MBA‘ MA اور PHD ڈاکٹرز سمیت 45 اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اور اس تعداد میں مزید اضافہ رد نہیں کیا جا سکتا۔ مندرجہ بالا تفصیل بھارتی خفیہ اداروں کی طرف سے مرتب کردہ اس رپورٹ کا حصہ ہے جس میں مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی میں حالیہ برسوں میں آنے والی شدت کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ 27 اکتوبر 2018ء کو مقبوضہ کشمیر سمیت پوری دنیا میں منائے جانے والے یوم سیاہ کے ردعمل میں بھارتی آرمی چیف کا یہ کہنا کہ ’’دنیا کی کوئی طاقت بھارت سے کشمیر نہیں چھین سکتی‘‘ اس بات کا اقرار ہے کہ بھارت اور اس کی قابض فوج تمام تر مظالم و قتل و غارت گری کے باوجود تحریک آزادی پر قابو پانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اب دنیا کا فرض ہے کہ وہ کشمیریوں کی پوری نوجوان نسل کو نارمل زندگی چھوڑ کر قابض بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے قبل کشمیر کا مسئلہ حل کرائے۔

The post اب مقبوضہ کشمیر کا ہر دن ’’یوم سیاہ‘‘ ہے appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.



from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2qnNvlE
via IFTTT

No comments:
Write komentar