Technology

Ads

Most Popular

Monday, 19 February 2018

امریکی معاشرے میں تشدد کی لہر

 

(وقار مسعود خاں)
چند روز قبل امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک چھوٹے سے قصبے پارک لینڈ میں واقع ہائی سکول میں 19 سالہ طالب علم نکولس کروز (Nicolas Cruz) نے آٹومیٹک گن سے اپنے 17 دیگر طالب علموں کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔ اجتماعی ہلاکتوں (mass shooting) کی یہ لرزہ خیز واردات ماضی میں اس نوعیت کی پیش آنے والی وارداتوں میں بدترین شمار کی جارہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ طالب علم، جو خود اس سکول میں پڑھتا تھا، نامناسب رویئے کیوجہ سے نکال دیا گیا تھا۔ واردات کے دن سکول ختم ہونے کے وقت یہ وہاں پہنچا اور سات منٹ فائرنگ کر کے زیادہ سے زیادہ طلباءکو نشانہ بنا کر خراما ںخراما ںرخصت ہوگیا۔ بعد ازاں وہ ایک شاپنگ مال گیا وہاں لنچ کیا ،واپس اپنے رہائشی علاقے کی طرف جانے لگا تو پولیس نے اس کو گرفتار کرلیا۔ نکولس کے متعلق جو معلومات سامنے آرہی ہیں ان کے مطابق وہ ذہنی انتشار کا شکار تھا۔ کچھ عرصہ قبل اس نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں بالکل اسی طرح کا کام کرنے کا عزم کیا تھا جو بالآخر اس نے انجام دیا۔ FBI کو یہ خبر کردی گئی تھی لیکن وہ بروقت کوئی قدم اٹھانے میں ناکام رہی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں اور سیاہ فام لوگوں کیخلاف نفرت کا اظہار بھی کرچکا تھا۔ (Anti Defmation League) کا کہنا ہے کہ وہ سفید فام نسل پرست تحریک سے رابطے میں تھا۔ کروز ایک کم گو اور تنہائی پسند طبیعت کا حامل تھا۔ اس کی ماں، جس نے اسے گود لیا تھا، چند ماہ پہلے انتقال کرگئی جبکہ اس کا شوہر دس سال پہلے فوت ہوچکا تھا۔ ایک دوست کے ماں باپ نے اس کی حالت پر رحم کیا اور اسے گھر بلا لیا تھا۔ وہ ڈیپریشن (depression) کا شکار بھی رہتا تھا۔

اجتماعی ہلاکتوں کے واقعات امریکہ میں معمول بن گئے ہیں، گذشتہ سال اکتوبر میں ایک شخص نے ہوٹل کی انیسویں منزل سے ایک کنسرٹ میں شریک مجمع پر اندھا دھند فائرنگ کرکے 58 افراد کو ہلاک اور 851 کو زخمی کر دیا۔ پولیس اور تحقیقاتی ادارے اس بات کو جاننے سے ابھی تک قاصر ہیں کہ کیوں کر اس شخص نے اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ اس ہوٹل میں کئی دنوں سے مقیم تھا اور آزادی کیساتھ بڑی مقدار میں اسلحہ لیکر آتا رہا جس کا کسی کو علم نہیں ہوا۔ اس نے اپنے کمرے کو ایک مورچے میں تبدیل کر دیا تھا جہاں نشانہ لینے کیلئے اس کے پاس دوربینیں بھی موجود تھیں۔ اس نے پندرہ منٹ فائرنگ کی اور خود اس سلسلے کو روک دیا۔ پولیس اس کے کمرے میں ایک گھنٹے کے بعد پہنچی جب تک اس نے خود کو بھی ہلاک کر لیا تھا۔

امریکہ میں تشدد کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ صرف اس نئے سال میں اب تک 6746 تشدد کے واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں 1863 افراد ہلاک اور 3216 زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں 17 سال کی عمر تک کے 400 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔ مزید براں ان میں 30 واقعات اجتماعی ہلاکتوں کے تھے جس میں 50 زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ 2014-2017 کے عرصے میں سوا دو لاکھ فائرنگ کے واقعات پیش آئے ہیں، جن میں 56755 لوگ ہلاک اور 111855 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

یہ اعداد و شمار ایک ہولناک صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک اس قدر گنز سے ہلاکتوں کا حامل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی جمع کردہ معلومات کے مطابق امریکہ میں گنز کے استعمال سے ہونے والی ہلاکتیں کینیڈا کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ اور جرمنی کے مقابلے میں سولہ گنا زیادہ ہیں۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ امریکہ کی کل آبادی دنیا کی آبادی کا صرف چار فیصد ہے لیکن دنیا کی وہ سویلین آبادی جو آتشیں ہتھیار رکھتی ہے اس کا پچاس فیصد (26.5 کڑوڑ) امریکہ میں ہے۔ اوسطاً امریکہ میں ہر روز کم از کم ایک اجتماعی ہلاکت کی واردات ہوتی ہے۔ قدرتی طور پر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ وہ کیا محرکات ہیں جو امریکی معاشرے میں تشدد کے اس رجحان کا باعث بن رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس کی سب سے اہم ترین وجہ امریکہ کا آئین ہے، جو شہریوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کیلئے آتشیں اسلحہ اپنے پاس رکھیں۔ گنز کنٹرول کا موضوع امریکہ میں شدید تنازع کا باعث ہے۔ گنز کے حامی اور مخالف تقریباً برابر کی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ مسئلہ ایک سیاسی تفریق سے بھی جڑا ہوا ہے۔ ریپبلکن پارٹی گن لابی کی حمایت کرتی ہے جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی گن کنٹرول کی حامی ہیں۔ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن جو گنز لابی کی نمائندہ تنظیم ہے، امریکی سیاست میں طاقتور اثرات کی حامل ہے، جو اپنے مخالفین کا تعاقب کرتی ہے اور حمائیتوں کی اعانت کرتی ہے۔ جب بھی کوئی بڑا حادثہ پیش آتا ہے، جیسا ابھی فلوریڈا میں ہوا، اور جس کے پس منظر میں گن کنٹرول کے مطالبات سامنے آتے ہیں، تو وہ ان کی شدید مخالفت کرتی ہے۔ بعض اوقات اس لابی کا رویہ غیر معقول بھی ہوجاتا ہے، خصوصاً جب وہ اپنے دلائل کی تلاش میں فراڈ ریسرچ کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کا مقولہ ہے کہ گنز ہلاک نہیں کرتیں بلکہ لوگ ایک دوسرے کو ہلاک کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ گنز کی وجہ سے تحفظ بڑھتا ہے اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ باتیں بے سروپا ہیں کیونکہ امریکہ گنز کرائمز کے واقعات میں اس قدر آگے ہیں کہ دوسرے نمبر کا ملک اس کی برابری کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

صدر ٹرمپ نے اپنے ردعمل میں اس واقع پر افسوس کا اظہار تو کیا ہے لیکن انہوں نے اس حادثے میں، یا کسی اور دوسرے موقع پر، گنز کے استعمال کے اور ان کی موجودگی کیخلاف کوئی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے صرف نفسیاتی مسائل کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے کیونکہ یہ متنازع موضوع ہے لہٰذا ان حادثات کے بعد جو عوامی رائے سے متعلق سروے ہوتے ہیں ان میں گنز کنٹرول کی حمایت میں کوئی خاص اضافہ نظر نہیں آتا۔ علاوہ ازیں، جیسا کے انہوں نے اور دوسرے معاملات میں صدر اوبامہ کے اٹھائے ہوئے اقدامات کو منسوخ کیا ہے، گنز کنٹرول سے متعلق بھی ان کے اقدامات کو منسوخ کردیا۔

گنز کنٹرول کے حامیوں کا موقف یہ ہے کہ اگر اس بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے کہ نفسیاتی مسائل ان حادثات کا محرک ہیں، تب بھی اصل مسئلہ گنز کی موجودگی اور ان کا استعمال ہے جو اتنی آسانی سے انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن جاتی ہے۔ پھر اس ضمن میں حقائق بھی بہت واضح ہیں۔ امریکی ریاستوں میں گنز کی خرید و فروخت کے قوانین میں فرق ہے، کچھ ریاستوں میں قوانیں سخت ہیں اور کہیں نرم۔ نامور محقیقین کی ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ریاستیں جہاں قوانیں سخت ہیں، وہاں پر گن کرائمز بھی کم ہیں۔ علاوہ ازیں ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں جرائم کی تعداد دیگر مغربی ممالک سے کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن گنز کے آزادانہ استعمال کی وجہ سے معمولی جرائم بھی ہلاکتوں کا باعث بن جاتے ہیں۔ نیویارک میں جائیداد کے کسی تنازعے میں جسمانی لڑائی میں ہلاکت کا امکان لندن کے مقابلے میں 96 گنا زیادہ ہے کیونکہ وہاں گن کی موجودگی اس کے استعمال کی ترغیب دیتی ہے۔پاکستان کی موجودہ صورتحال بھی کسی حد تک امریکی صورتحال سے ملتی جلتی ہے۔ 80ءکی دہائی سے قبل ہماری سوسائٹی میں آتشیں اسلحے کا کوئی قابل ذکر وجود نہیں تھا لیکن افغان جنگ کی ساتھ ہی ملک کے طول و عرض میں مشین گن کی فراہمی عام ہوگئی۔ اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی صاحب حیثیت شخصیت اور خصوصاً سیاستدان اسلحہ بردار محافظوں کے بغیر گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔ باہمی تنازعات اور جھگڑے بہت جلد اسلحے کے استعمال اور ہلاکتوں کا باعث بنتے ہیں۔

موجودہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں اسلحے کی لعنت اور اس سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا ذکر کر کے ہمیں خوشگوار حیرت میں ڈال دیا تھا۔ انہوں نے اپنے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ اس لعنت کو ختم کر دینگے کیونکہ اس کے بغیر ایک محفوظ معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس ضمن میں حکومت نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بااثر لوگوں اور اشرافیہ نے خود کو مسلح کرلیا ہے اور عوام کو تنہا اور نہتا چھوڑ دیا ہے۔ ایسی صورت میں عوام کا ریاست سے یہ اعتماد اٹھ گیا ہے کہ وہ ان کی جان و مال کا تحفظ کریگی، بس اللہ توکل گزارا ہو رہا ہے۔

The post امریکی معاشرے میں تشدد کی لہر appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.



from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ http://ift.tt/2EDnsAn
via IFTTT

No comments:
Write komentar