کراچی (ویب ڈیسک ) آج کل سوشل میڈیا کے ایک مخصوص حلقے جس کے ممبران میں اعلیٰ سرکاری حاضر سروس سرکاری ملازمین و ججز، وکیل، بیوروکریٹ اور اہم افراد شامل ہیں۔ ایک اہم دستاویزات موضوع بحث ہیں۔ راقم کو بھی یہ دستاویزات موصول ہوئیں اور جب ان پر سیرحاصل تحقیقات کی گئیں
تو بہت ہی زیادہ ہوشربا حقائق سامنے آئے۔ دورانِ تحقیقات جب کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور نیب ذرائع سے تصدیق چاہی گئی تو خاموشی اور موضوع پر بات کرنے سے انکار کیا گیا۔ مذکورہ معاملہ سابق اعلیٰ عہدیدار اور سیاسی پارٹی کے سربراہ سے متعلق ہے جن پر نیب کے علاوہ ایک اور ادارہ بھی تحقیقات کررہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق نیب نے زیڈ جی پرائیویٹ لمیٹڈ کے خلاف تحقیقات شروع کیں اور کے ڈی اے سے تمام متعلقہ ریکارڈ تحویل میں لے لیا۔ دوران تحقیقات مذکورہ گروپ کے متعلق یہ شواہد بھی ملے کہ اس کی ملکیت ایک ہی بلاک میں جوکہ کلفٹن اسکیم 5میں ایک ہزار سے چار ہزار مربع گز کے 46پلاٹ/بنگلے ہیں جس کا کل رقبہ 56ہزار مربع گز اور سڑکیں اور پارکنگ ایریا اس میں شامل کیا گیا تو مجموعی رقبہ 65ہزار 700مربع گز ہوگیا اور اس کی موجودہ قیمت 52ارب روپے بنتی ہے۔ کے ڈی اے کی تحویل سے لی گئی فائل (جوکہ بعد میں نیب نے ہر صفحے کی فوٹوکاپی جس کو کے ڈی اے کے افسر نے باقاعدہ تصدیق اور اپنے دستخط سے نیب کو فراہم کی) اور فائل واپس کے ڈی اے کے حوالے کردی گئی) میں ایک مراسلہ مذکورہ گروپ زیڈ جی پرائیویٹ لمیٹڈ کا ہے جوکہ 20جنوری 2012ء کا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے
کہ گروپ کی خاتون ڈائریکٹر کو یہ حق دیا گیا کہ وہ کے ڈی اے سے اسکیم 5میں واقع 4پلاٹ 1، 3،4اور 5کو یکجا کرکے ایک پلاٹ کا درجہ دے دیا جائے۔ اس مراسلے کے علاوہ اس میں یہ سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا کہ مذکورہ گروپ کے چیف ایگزیکٹو مذکورہ طاقتور شخصیت کے صاحبزادے ہیں جبکہ ڈائریکٹر ان شخصیت کی ہمشیرہ ہیں۔ 9ماہ بعد 11؍ستمبر 2012ء کو کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے لینڈ مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ (کے ڈی اے ونگ) نے مذکورہ گروپ کو ایک مراسلہ تحریر کیا کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر پی سی IIIماسٹر پلاٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈی اے ونگ کے لیٹر نمبر sch-5-c-13/2012/177/L مورخہ 17؍اگست 2012ء کو این او سی جاری کردیا تھا کہ ان چار پلاٹوں کو یکجا کردیا جائے اور وہ ایک ہی پلاٹ نمبر کہلائے گا اور جس کا رقبہ 20573مربع گز بنتا ہے۔ اب یہاں سے ہی تمام گڑبڑ گھٹالہ شروع ہوتا ہے۔ مذکورہ مراسلے میں پلاٹ نمبر 1کا رقبہ 1447مربع گز، پلاٹ نمبر 3کا رقبہ 2013مربع گز تھا جوکہ مجموعی طور پر 7550مربع گز بنتا تھا جبکہ مراسلے میں 20ہزار 573مربع گز کسی amalgamationاجازت دی گئی بطور ایک پلاٹ اور یہ شرط بھی رکھی گئی کہ بطور ایک پلاٹ پانی، بجلی اور گیس اور دیگر سہولتوں کے بھی صرف ایک ایک کنکشن لینے کے ہی مجاز ہوں گے۔
جب کے ڈی اے کے تقریباً 10اعلیٰ افسران سے ایک سوال کیا گیا کہ مذکورہ چار پلاٹ ایک ہی لائن میں تھے تو اس میں پلاٹ نمبر 2تو شامل نہیں تو کس طرح ان چار پلاٹوں کو یکجا کرنے کی اجازت دے دی گئی تو سب نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ناصرف حیرانگی کا اظہار کیا بلکہ کلیئر کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی لائن میں پلاٹ ہوں اور کسی ایک پلاٹ کو چھوڑ دیا جائے جیسے اس کیس میں پلاٹ نمبر 2کا ذکر ہی نہیں لہٰذا اجازت قطعی غیر قانونی تھی۔ مذکورہ یکجا کرنے والے مراسلے پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر (کمرشل سیل) لینڈ مینجمنٹ کے ڈی اے ونگ کے ایم سی کے دستخط موجود ہیں۔ نیب کو ایک اور Attested True Copyجو کے ڈی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے فراہم کی وہ مذکورہ زیڈ جی پرائیویٹ لمیٹڈ کی سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان (ایس ای سی سی) میں جمع کردہ آرٹیکل آف میمورنڈم کی کاپی ہے جس کے مطابق اس کے پہلے منیجنگ ڈائریکٹر وہی طاقتور سیاسی شخصیت بنے، چیئرمین اور ڈائریکٹرز ان کے قریبی رشتے دار بنے ۔ دوران تحقیق یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ کمپنی کی ان کارپوریشن تاریخ 23 نومبر 1981ء اور اس کا رجسٹریشن نمبر 0090تھی، اس کا پہلے ایڈریس صدر کے نزدیک ایک بنگلہ تھا
اور بعد میں اس سے تھوڑے فاصلے پر شارع فیصل پر کاشف سینٹر میں واقع ہے۔ اس آرٹیکل آف میمورنڈم میں شرائط میں بھی تحریر ہے کہ ڈائریکٹر کی کم از کم تعداد 2اور زیادہ سے زیادہ 10ہوگی اور اس کے شیئرز عام پبلک کو فروخت نہیں کیے جائیں گے اور ڈائریکٹر کے ایک ایک شیئر ہوں گے جن کی مالیت فی شیئر 25ہزار روپے رکھی گئی۔ مزید تحریر کیا گیا کہ منیجنگ ڈائریکٹر کو اختیار ہوگا کہ وہ کوئی بھی زمین خرید سکتا ہے یا حاصل (کرایہ پر) کرسکتا ہے اور کمپنی جو اختیار دے وہ فائدے لے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام اقدامات، معاملات اور چیزیں جو ضروری ہوں جن میں بلز آف ایکسچینج، پرومشری نوٹس، چیکس، ڈرافٹ اور حیرت انگیز طور پر ’’ہنڈی‘‘ کو بھی ڈیل کرے گا۔ مذکورہ اہم اسٹوری پر کام کرتے ہوئے جب کے ڈی اے کے دفاتر واقع سوک سینٹر میں مختلف افسران سے بات چیت کی گئی، اوّل تو وہ معاملے کی حساسیت کی وجہ سے بات کرنے سے انکاری تھے مگر اس یقین دھانی پر کہ ان کے نام ظاہر نہیں کیے جائیں گے تو معلوم ہوا کہ اس معاملے کو ذاتی طور پر اس وقت چیئرمین ایس بی سی اے منظور قادر کاکا دیکھ رہے تھے، ان ہی کے دباؤ پر یہ کارروائی مکمل ہوئی۔ نیب فائل لے گئی تھی اور بعد میں واپس کردی
مگر جب ان سے یہ درخواست کی گئی کہ وہ فائل دیکھنی ہے تو وہ ریکارڈ میں تلاش کی گئی اور یہ انکشاف ہوا کہ وہ فائل اب غائب ہے۔ ایس ای سی پی جو اس بات کی پابند ہے کہ وہ رجسٹرڈ کمشنیوں کے آرٹیکل آف میمورنڈم اپنی ویب سائٹ پر ڈالے، وہاں پر بھی مذکورہ کمپنی کا نام تو آرہا ہے مگر تفصیلات ہٹا دی گئی ہیں۔ اسی حوالے سے نیب کراچی کے ترجمان احمد رضا سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا نیب مذکورہ کمپنی کے خلاف تحقیقات کررہی ہے تو اُنہوں نے دو یوم بعد جواب دیا کہ آپ کا سوال متعلقہ افسر سے کیا گیا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ہم اہم معلومات شیئر نہیں کرسکتے اور اُنہوں نے مشورہ دیا کہ مرکزی ترجمان نوازش جو نیب ہیڈ کوارٹر میں ہوتے ہیں ان سے سوال کیا جائے۔ جب اُن سے سوال کیا گیا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ’’میں نے آپ کا سوال متعلقہ ونگ کو بھیج دیا ہے اور جیسے ہی جواب موصول ہوگا وہ مجاز اتھارٹی سے اجازت ملنے اور قانون کے مطابق دے دیا جائے گا۔‘‘ اس کے بعد ان سے کئی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر اُنہوں نے فون اٹینڈ کرنے سے اجتناب کیا اور نہ ہی میسج کا جواب دیا۔(ز،ط)
from Tareekhi Waqiat Official Urdu Website https://ift.tt/2Nc2Y5n
via IFTTT
No comments:
Write komentar