اسلام آباد(ویب ڈیسک ) وزیراعظم عمران خان نے سکیورٹی انتظامیہ کوہدایت کی ہے کہ میرے سفر کی وجہ سے عوام کوکوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے، میرے سفر کے دوران ٹریفک نہ روکی جائے،میری سکیورٹی کیلئے سیکڑوں کی تعداد میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنے کی ضرورت نہیں، سکیورٹی پراٹھنے والے غیرضروری اخراجات
کم کیے جائیں،دوسری جانب سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں وزیراطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ جی ایچ کیو کا دورہ بہت زبردست رہا، وزیر اعظم اور کابینہ ارکان کو دنیا کی بہترین فوج کی کمانڈ سے ملاقات پر فخر ہے، ادا رو ں کے مابین رابطوں اور تعاون سے درپیش چیلنجز پر قابو پا سکتے ہیں، جی ایچ کیو میں دی گئی تفصیلی بریفنگ بڑی اہمیت کی حامل تھی، وزیراعظم کو دہشتگردی اور انتہا پسندی کیخلاف جاری آپریشنز سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا۔ اس موقع پروزیر اعظم کے ہمراہ وزرائے دفاع ، خارجہ، خزانہ اور اطلاعات بھی تھے۔جبکہ دوسری جانب ایک اور خبر کےمطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ملکی تاریخ میں وہ پہلے وزیر اعظم بن گئے ہیں جنہوں نے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) میں اجلاس کی تنِ تنہا صدارت کی ہے۔ اس سے قبل جی ایچ کیو میں ہونے والے اجلاسوں کی صدارت وزیر اعظم اور آرمی چیف مشترکہ طور پر کرتے رہے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کے روز وفاقی کابینہ کے ہمراہ جی ایچ کیو کا دورہ کیا جہاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر نومنتخب وزیر اعظم کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا
جس کے بعد فوجی حکام اور کابینہ کا اہم اجلاس ہوا جس میں ملٹری حکام کی جانب سے داخلی سلامتی سمیت دیگر امور پر کابینہ کو بریفنگ دی گئی ، یہ اجلاس مسلسل 8 گھنٹے تک جاری رہا ۔نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز کے مطابق جی ایچ کیو میں ہونے والے اجلاس کی صدارت وزیر اعظم عمران خان نے کی ۔ ان کے دائیں طرف کی پہلی کرسی پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ براجمان تھے جبکہ اسی قطار میں ڈی جی آئی ایس آئی سمیت دیگر حکام موجود تھے۔ عمران خان کے بائیں جانب پہلی کرسی پر وزیر دفاع پرویز خٹک بیٹھے ہوئے تھے جس کے بعد بالترتیب کابینہ ارکان موجود تھے۔ ماضی میں اس سے پہلے جتنے وزرائے اعظم گزرے ہیں وہ آرمی چیف کے ساتھ اجلاسوں کی مشترکہ صدارت کرتے تھے، تاہم عمران خان نے اس سلسلے میں نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔(ز،ط)
from Hassan Nisar Official Urdu News Website https://ift.tt/2opqCgt
via IFTTT
No comments:
Write komentar