Technology

Ads

Most Popular

Wednesday, 1 August 2018

تبدیلی آ گئی ہے

 

(زمرد نقوی)
عمران خان نے الیکشن جیتنے کے بعد کہا ہے کہ اگر کسی کو دھاندلی کی شکایت ہے تو ہم تعاون کریں گے اور وہ حلقے کھلوائیں گے۔ بائیس سالہ جدوجہد کامیاب ہوئی اور نیا پاکستان بنانے کا خواب پورا کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ ہماری حکومت میں احتساب مجھ سے شروع ہو گا۔ اس کے بعد میرے وزراء کا احتساب ہو گا۔

قانون کی بالادستی قائم کریں گے، کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ ساری پالیسیاں کمزور طبقے اور غریب کسانوں کے لیے بنائیں گے۔ ثابت کر کے دکھاؤں گا ہم گورننس بہتر کر سکتے ہیں۔ عوام سے وعدہ کرتا ہوں ان کے ٹیکس کے پیسے کی حفاظت کروں گا۔ وزیراعظم ہاؤس ایک بہت بڑا محل ہے اس میں جا کر رہنا میرے لیے شرم کی بات ہو گی۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر عیاشیاں کرنے کی روایت کو تبدیل کرنا ہو گا۔

ہمیں خود مسائل سے نکلنا ہو گا، کوئی باہر سے آ کر ہمیں نہیں نکالے گا۔ خارجہ پالیسی میں چین اور ایران سے تعلقات مزید بہتر کریں گے۔ افغانستان سے ایسے تعلقات چاہتا ہوں کہ سرحدیں کھلی ہوں۔ امریکا سے متوازن تعلقات چاہتے ہیں۔ عمران خان نے بھارت سے تعلقات کے حوالے سے کہا کہ ہمیں بلیم گیم سے نکلنا ہو گا ،اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہمیں مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا۔

دونوں ملکوں کے درمیان تجارت عوام کی خوش حالی کا باعث بن سکتی ہے۔ تمام مسائل ڈائیلاگ سے حل ہوں گے۔ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔ انھوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ان کا ماڈل حضور نبی اکرمؐ کے زمانے کا مدینہ ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی نصف کے قریب آبادی خط غربت سے نیچے ہے جنھیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔

ڈھائی کروڑ بچہ اسکول سے باہر اور لاکھوں بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ جس گھر میں فاقہ ہو گا وہ بچے غذائی کمی کا شکار نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا۔ ایک بڑھتے ہوئے بچے کو صرف روٹی نہیں بلکہ دودھ، دہی، انڈے، گوشت اور پھل بھی چاہیے ہوتے ہیں۔ آپ اپنے اردگرد ذرا غور سے نظر دوڑائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ غذائی کمی کی وجہ سے بچوں کی اکثریت پست قد ہے۔ جسمانی کمزوری، دماغی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔

بڑھتی ہوئی بچیوں کا اس معاملے میں زیادہ ہی برا حال ہے، جنھیں آگے چل کر مائیں بننا ہے۔ یعنی خود جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور تو آنے والی نسل بھی کمزور تو یہ نسل کس طرح مختلف شعبوں میں دنیا کا مقابلہ کر سکے گی۔ ہمارے ملک میں دوران ڈلیوری ماؤں کی مرنے کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ آپ تصور کریں کہ جب ایسی مائیں مرتی ہیں تو ان کے پیچھے رہ جانے والے بچوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں معاشرہ کمزور اور ہر طرح کی خرابی کا شکار ہو جاتا ہے۔

سب سے بڑا مسئلہ بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیات، صاف پانی اور شجرکاری ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ ان معاملات میں جنگی اقدامات لیں۔ عمران خان کی تقریر اندرون بیرون ملک دونوں جگہ پسند کی گئی۔ اگلے کالم میں اس پر مزید گفتگو ہو گی۔

گزشتہ کالم میں میں نے ایک فقرہ لکھا تھا کہ 80ء اور 90ء کی دہائی میں جس لہر کا آغاز ہوا اب اپنے اختتام کو پہنچنے جا رہی ہے۔ سابقہ دور کا خاتمہ اور ایک نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ گزشتہ 30 سالہ دور جس میں عالمی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات یک جا ہو گئے تھے۔ پیپلزپارٹی کا خاتمہ بھی ان ہی مقاصد کے تحت پنجاب میں ہوا۔ نواز شریف، الطاف حسین اور طالبان کی تخلیق اسی مشترکہ ایجنڈے کے تحت ہوئی۔ مقامی اسٹیبلشمنٹ نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ کچھ اپنے مفادات اور بعد میں اپنی مجبوریوں کے تحت دیا۔ اب ایسی کوئی مجبوری باقی نہیں رہ گئی۔ طاقت کے نئے مراکز ابھر رہے ہیں، ان کا ساتھ دینے میں ہی پاکستان کی بقاء ہے۔

ایران پر امریکا کا متوقع حملہ چین، روس، پاکستان اور ایران کو مزید قریب لے آئے گا۔ آصف علی زرداری نے اس متوقع صورتحال کو بھانپ کر کسی بھی ایجی ٹیشن میں شریک ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ اپنی بقاء کے لیے انھوں نے پارلیمانی فورم کو تھامے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے سندھ میں پیپلزپارٹی کے اقتدار کو لاحق خطرات کچھ دور ضرور ہو گئے ہیں لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے نہ ہی ہوں گے۔ صرف مہلت ملی ہے ’’وقت معینہ تک‘‘ شہباز شریف اسی سمجھداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن طویل المدت میں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ آخر کار ن لیگ کا انجام بھی پیپلزپارٹی کی طرح ہو گا۔ رہے نام اللہ کا۔

اپریل 2016ء میں پاناما کا طوفان آتے ہی میں نے نواز شریف کے زوال کی پیش گوئی کر دی تھی۔ ویسے تو اس زوال کا آغاز 2013ء کے الیکشن کے فوراً بعد سے ہو گیا تھا۔ فیصلہ کن مرحلہ جون 2014ء سے شروع ہوا۔ پہلے پاناما پھر پچھلے سال 28 جولائی نواز شریف نااہل ہوئے، پھر اس سال جولائی کا آخر جیسے ہی نواز شریف 12ویں گھر میں آئے وہ اقتدار سے محرومی کے ساتھ جیل میں مقید اور ان کی پارٹی بھی انتخاب ہار گئی۔ یہ ہیں صدی کے طویل ترین خون رنگ مکمل چاند گرہن کے اثرات۔ اس سے پہلے 13 جولائی کا سورج گرہن، یہ وہی دن ہے جب نواز شریف کو پاکستان واپسی پر اڈیالہ جیل لے جایا گیا۔ ابھی 11 اگست کا سورج گرہن باقی ہے۔ یہ وقت دنیا کی روایتی قدامت پرست قوتوں کے زوال کا وقت بھی ہے۔ بشکریہ ایکسپریس نیوز

The post تبدیلی آ گئی ہے appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.



from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2MaLMZV
via IFTTT

No comments:
Write komentar