(تحقیق و ترجمہ: تسنیم خیالی)
مشہور عرب ویب سائٹ ’’رائی الیوم‘‘ نے پاکستان میں 25 جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کے حوالے ایک دلچسپ مضمون شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی سعودی عرب، امارات اور امریکہ کے خوفزدہ ہونے کا باعث بن گئی ہے۔ مضمون کے مطابق پاکستانی عام انتخابات میں سعودی عرب کے اتحادی نواز شریف کی ’’مسلم لیگ نون‘‘ کی شکست کے بعد سعودی عرب کافی پریشان ہو چکا ہے اور جیتنے والے عمران خان سعودی عرب سے قربت نہیں رکھتے، نیز وہ یمن جنگ کے بھی مخالف ہیں اور ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات کے خواہاں ہیں۔ اس وقت نواز شریف بدعنوانی کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے ہیں ٹھیک اسی طرح جس طرح سعودی عرب کا دوسرا اتحادی ملائیشیا کا سابق وزیراعظم نجیب عبدالرزاق سلاخوں کے پیچھے ہے۔
وزیراعظم بننے کے بعد مہاتیر محمد نے سب سے پہلا فیصلہ یہ کیا کہ انہوں نے یمن کے خلاف بنائے جانے والے عرب اسلامک اتحاد میں شامل ملائیشیا کو اس اتحاد سے نکالا اور توقع یہی ہے کہ عمران خان بھی 2015ء میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ہاتھوں قائم ہونے والے’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ سے پاکستان کو نکالے گا۔ یہ درست ہے کہ عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی سے اقتصادیات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور 1992ء میں پاکستان کو کرکٹ کا ورلڈکپ جتا چکے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ انہیں اور انکی جماعت ’’تحریک انصاف‘‘ کو انتخابات جیتنے کے حوالے سے دھاندلی کے الزامات کا سامنا ہے اور پاکستانی فوج پر بھی یہ الزامات عائد کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے انتخابات میں عمران خان کے حق کے میں نتائج میں دروبدل کیے مگر یہ بھی درست ہے کہ پاکستانی عوام میں عمران خان کی مقبولیت بہت زیادہ ہے جس کی وجہ انکا انتخابی مشور ہے جس میں انہوں نے پاکستانی عوام کو انصاف دلانے اور ملک میں مضبوط اور مستحکم عدلیہ، قانون کی بالادستی اور کرپشن کے خاتمے پر زور دیا، پاکستان اور تیسری دنیا کے بیشتر ممالک جیسا کہ عراق، شام، الجزائر، اور ترکی (اردگان کے اقتدار میں آنے سے قبل) میں جہاں ملک کی سلامتی اور استحکام میںفوج کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے، وہیں قیادت کے چناؤ میں میں بھی اہم ہوتا ہے، آپ صرف اس بات پر غور کریں کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں نصف سے بھی زائد عرصے میں فوج نے ہی حکومت کی۔
لہٰذا پاکستان پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ عمران خان کو فوج کی حمایت کمزور نہیں بلکہ طاقت ور بناتی ہے اور اگر سعودی عرب اور امارات عمرام خان کے اقتدار میں آنے سے پریشان ہیں تو امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی پریشانی سعودی اور اماراتیوں کی پریشانی سے بڑھ کر ہے، کیوں کہ خان مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کا مخالف ہے۔
علاوہ ازیں خان مسئلہ فلسطین کے معاملے میں فلسطینیوں کا حامی ہے اور اس ضمن میں خان اسرائیل مخالف کئی سرگرمیوں میں شرکت کر چکے ہیں اور یہ مخالفت انہوں نے طالب علمی کے دور میں، بطور کرکٹر اور سیاست میں قدم رکھنے کے بعد بھی جاری رکھی، اس بات کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ ان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان جو کہ یہودیت کو چھوڑ کر مسلمان ہوئیں اسرائیل کے خلاف کئی مضامین لکھ چکی ہیں جو مشہور برطانوی اخبار ’’دی گارڈین‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔ عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جاری ہونے والے پاکستان مخالف ٹویٹس کا بھی جواب دیا تھا، ٹرمپ نے اپنی ٹویٹس میں کہا تھا کہ امریکہ نے گزشتہ 15 سالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر دیئے تھے جس کے عوض امریکہ کو جھوٹ، دھوکے بازی اور دہشت گردوں کو پاکستان میں محفوظ پناہ کے علاوہ کچھ نہیں ملا، اس ٹویٹ کے جواب میں عمران خان نے غصیلے انداز میں ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا ’’تو احمق اور جاہل شخص ہے جس نے پاکستان کے احسانات فراموش کر دیئے ہیں ‘‘
خان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ نے ہی 80 کی دہائی میں (CIA) کی مدد سے دہشت گرد تنظیموں کو بنایا اور پاکستانیوں کو دہشت گردی کی طرف دھکیلا اور پھر 10 سال بعد 9/11 حملوں کی وجہ سے انہی تنظیموں کے خلاف جنگ لڑنے میں ہماری مدد مانگی، عمران خان کی جیت پر آل سعود کی طرف سے واضح پریشانی کا مظاہرہ شہزادہ خالد بن عبداللہ آل سعود نے کیا، خالد نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ ایران کی دم ہے اور اسلام آباد میں قم کی نمائندگی کر رہا ہے البتہ شہزادے کی یہ ٹویٹ ہٹا دی گئی۔
عمران خان جو متعدد جماعتوں کے اتحاد سے حکومت تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہوئے 14 اگست سے قبل حلف اٹھانا چاہتے ہیں پاکستان کو بدل کر رکھ دیں گے، اگر ہوا کا رخ ان کی مرضی کے مطابق ہوا، وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں، بھارتی قیادت سے مل کر مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتے ہیں، افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ ملکر افغانستان میں امن لانا چاہتے ہیں، ایران کے ساتھ ملکر تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف امریکی اتحاد کو خیرباد کہنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب، امارات اور امریکہ کو حق ہے کہ وہ پریشان ہوں کیونکہ پاکستان کے نئے وزیر اعظم، سابقہ وزراء اعظم کی طرح ’’ڈمی‘‘ نہیں اور ممکن ہے کہ عمران خان پاکستان کو پھر سے علاقے میں ایک انتہائی اہم ملک کا مقام دلانے میں کامیاب ہو جائیں جس پر سابقہ حکومتوں نے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔
The post سعودی عرب امارات اور امریکہ پاکستانی انتخابات کے نتائج سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.
from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2OzZV4v
via IFTTT


No comments:
Write komentar