(وقار مسعود خان)
اس سال مئی میں صدر ٹرمپ نے ایران کیساتھ جولائی 2015 میں کیے گئے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو منسوخ کردیا تھا۔ یہ معاہدہ امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کیلئے برسوں کی محنت شاقہ کے بعد حاصل کیا تھا۔ اس تنسیخ سے بے شمار مسائل، بے یقینی اور پیچیدگیوں نے جنم لیا ہے۔ ایران معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا رہا ہے اور اس کی تصدیق وقفے وقفے سے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی اس معاہدہ کے تحت بنائی جانے والی اپنی رپورٹوں میں کرتا رہتا ہے۔
معاہدے میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین بھی فریق تھے۔ یورپی یونین کے نمائندے نے معاہدے پر دستخط کئے جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کی باقاعدہ منظوری دی جس کے نتیجہ میں ایران پر عائد عالمی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔ لہذا اس سارے معاملے میں بین الاقوامی قانون کے سوالات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرنے کا ایک طریقہ کار خود معاہدے کے اندر درج ہے، جو صرف اس صورت میں قابل عمل ہے جب کسی فریق کو یہ شکایت ہو کہ ایران اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی کر رہا ہے۔
اس صورت میں باقاعدہ شکایت ایک متعلقہ دفتر میں داخل کرائی جائیگی جو اس شکایت کا جائزہ لے گا اور ضروری تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ ایک کمیٹی کے سامنے رکھے گا جس کی روشنی میں کوئی قدم اٹھانے کافیصلہ ہوگا ایران معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے، اور امریکہ نے معاہدے کے تحت ایران کے خلاف کوئی شکایت بھی جمع نہیں کرائی ہے۔ لیکن امریکہ نے ایران کے خلاف ایسی شکایتوں کا ایک دفتر کھول دیا جو معاہدے کا حصہ نہیں ہیں۔ مثلاً امریکہ کا یہ کہنا کہ ایران نے مشرق وسطی میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا دیا ہے،
وہ شام اور یمن میں مداخلت کر رہا ہے یا یہ کہ وہ اپنے میزائیل پروگرام کی صلاحیت بڑھا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے سابق صدر اوبامہ کو یہ معاہدہ کرنے پر خصوصی تنقید و تحقیر کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس معاہدے نے ایران کو ساری دنیا میں امریکی مفادات کیخلاف کام کرنے کا نہ صرف لائسنس دے دیا ہے بلکہ معاہدے کے نتیجے میں ایران پر عائد پابندیاں ہٹا کر اس کو مالی طور پر اس قدر طاقتور بنا دیا کہ وہ اپنی تخریبی سرگرمیاں بلا روک ٹوک کر رہا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ایران کیساتھ ایک دوسرا معاہدہ کرنے کو تیار ہیں جو ایران کو ان سرگرمیوں سے روکے گا۔
اس پیشکش کو ایران نے یہ کہہ کر رد کردیا ہے کہ امریکہ قابل اعتماد فریق نہیں ہے۔معاہدے کی منسوخی نے دیگر فریقین کو شدید مشکل سے دوچار کر دیا ہے۔اول، ماہرین کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر امریکہ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار نہیں کر سکتا۔ امریکی سینٹ نے ا قوام متحدہ کے چارٹر کو منظور کرکے سلامتی کونسل کی منظور شدہ قرارداوں پر عملدرآمد کرنا امریکہ پر لازم قرار دیا ہے۔ امریکہ کے ویٹو کی موجودگی میں اس کے خلاف کوئی قرارداد سلامتی کونسل میں نہیں لائی جا سکتی، لہذا عالمی نظام ثالثی ایک بڑے بحران کا شکار ہوگیا ہے اور اس کا اعتبار دنیا میں کم ہوگیا ہے۔ دوم،
دیگر فریقین اس معاہدے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہوں نے امریکی علیحدگی کے بعد واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاہدے کو قائم رکھیں گے اور ایران کو معاہدے کے تحت جو آسانیاں فراہم کی گئی تھیں ان کو جاری رکھا جائیگا۔ مزید برآں، یورپی یونین نے واشگاف الفاظ میں اپنے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ ایران پر عائد کی جانیوالی پابندیوں کو ناکام بنانے کیلئے بھرپور کردار ادا کرینگے۔ سوم، معاہدہ کے تحت اگر کوئی فریق اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریگا تو ایران کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ معاہدے سے الگ ہوجائے۔
امریکی اقدام نے ایران کیلئے معاہدے سے نکلنے کا راستہ کھول دیا ہے، جبکہ دیگر فریق یہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ معاہدے میں موجود رہے۔چہارم، امریکہ نے تنسیخ کیساتھ ہی ایران پر وسیع پیمانے پر پابندیاں لگانے کا اعلان کر دیا ہے جو 4 نومبر سے نافذ العمل ہیں اور جس کی وجہ سے عالمی معیشت ایک بڑے بحران کا سامنا کرنے والی ہے۔اس وقت مسئلہ یہ درپیش ہے کہ یورپ سے تعلق رکھنے والے ایسے بزنس گروپ جو ایران میں پابندیاں اٹھنے کے بعد جوق در جوق اس کی پرکشش مارکیٹ سے فائدہ اٹھانے اور اس کی بے پناہ سرمایہ کاری کی ضرورتوں کو پورا کرنے پہنچے تھے وہ اب امریکہ کی پاپندیوں کی وجہ سے فوری طور پر اپنی سرگرمیوں کو ختم کرکے واپس اپنے ممالک جا چکے ہیں۔
کیونکہ وہ ان نقصانات کو نہیں اٹھا سکتے جن کا سامنا انہیں امریکہ میں اپنی سرگرمیوں کو بند کرنے کی صورت میں اٹھانا پڑیگا۔ لہذا یورپی یونین کس حد تک اس کوشش میں کامیاب رہے گی کہ اپنے شہریوں اور اداروں کو امریکی پابندیوں سے محفوظ رکھ سکے اس کا تعین ہونا باقی ہے۔ صدر ٹرمپ اور انکی انتظامیہ کے دیگر اہلکار پابندیوں کے اثرات اور نتائج سے متعلق سخت اور نہایت جارحانہ بیانات جاری کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ایران کو تیل کا ایک قطرہ برآمد کرنے نہیں دینگے اور جس نے ایسی کوشش کی تو اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑیگا۔
پابندیاں اسقدر سخت ہیں کہ ماضی کے برخلاف اس بار امریکہ نے کسی بھی ملک کو استثنیٰ دینے سے انکار کردیا ہے۔ جاپان اور بھارت، جن کی تیل کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ ایران سے درآمد ہوتا ہے اور جنہیں ماضی میں استثنیٰ حاصل تھا اس سہولت سے منع کردیا گیا ہے جو ان کیلئے بڑی زحمت کا باعث ہوگا۔ یہ واقعات عالمی مارکیٹ پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل کی سطح عبور کر چکی ہے اور کچھ تجزیہ کار پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ یہ جلد ہی 90 ڈالر سے بھی اوپر چلی جائیگی۔ ایران کی معیشت، جو گذشتہ پابندیوں سے بری طرح متاثر ہوئی تھی اور پابندیوں کے خاتمے کے بعد وہ ابھی بمشکل اپنی تعمیر نو کے عمل کا آغاز کر رہی تھی،
اسے پھر ایک بڑی مشکل کا سامنا ہے۔ چین اور روس یقیناً کچھ راستے تلاش کر لیں گے لیکن اصل مسئلہ یورپ ہے جس کی بڑی مارکیٹ کے بغیر اس کی برآمدات میں بڑی کمی واقع ہوجائیگی۔ دوسری جانب اگر یورپ نے اس مسئلہ کا حل نہ نکالا تو ایران مجبوراً معاہدے سے علیحدہ ہو جائیگا، جو عالمی امن کیلئے شدید خطرات کا باعث ہوگا۔ اس صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے، یورپ نت نئی تدبیریں (The out of slution box) سوچ رہا ہے گو ابھی ان تدبیروں کی تاثیر اور پائیداری پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
اصل مسئلہ دنیا میں ڈالر کی بحیثیت ذریعہ ادائیگی ( of medium exchange حکمرانی ہے۔ جب بھی ڈالر میں ادائیگیاں ہوتی ہیں ان کی آخری کلیرنس نیو یارک میں امریکہ کے مرکزی بینک میں ہوتی ہے۔ پابندیوں کے اجراء کے بعد ایران سے جس نے بھی تجارت کی وہ امریکی مالیاتی نظام سے نکال دیا جائیگا۔ کیونکہ تیل کی تجارت ڈالر میں ہوتی ہے، لہذا ایرانی تیل مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوسکتا۔ چند دن پہلے یورپ نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے عالمی مالی ترسیلات کے نظام کا متبادل بنا لیا ہے جو امریکی تسلط سے آزاد ہوگا اور اس کو استعمال کرنے والوں کے کوائف امریکی نظام کو نہیں معلوم ہونگے۔
یہ ایک بڑی پیش رفت ہے اور اگر یہ کامباب ہوجاتی ہے تو اس سے امریکی ڈالر کی موجودہ حکمرانی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس پیش رفت پر امریکی وزیر خارجہ نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ وہ یورپ کے اس رویے سے نالاں ہے جبکہ خود انہوں نے یورپ کی معاہدے کو برقرار رکھنے کی سب درخواستیں مسترد کردی تھیں۔آنیوالے چند ہفتے عالمی امن اور مارکیٹ کے استحکام کیلئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ عالمی طاقتوں کے ایک بڑے اتحاد کے درمیان ایک بڑا اختلاف سامنے آرہا ہے۔
امریکی تسلط پر مبنی عالمی مالیاتی نظام کو یورپ نے چیلنج کردیا ہے۔ یقیناً تاریخ عالم میں یہ ایک نئے موڑ کی آمد ہے، لیکن اس کے آگے کیا مقامات اور حالات آنے والے ہیں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس خطے میں امن قائم رہے۔ آمین
The post کیا ایران امریکی پابندیوں کا سامنا کرسکتا ہے؟ appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.
from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2OZ28GJ
via IFTTT
No comments:
Write komentar