Technology

Ads

Most Popular

Sunday, 30 September 2018

سیکولرازم کا بھیانک چہرہ بے نقاب

 

(طارق سردار فرخ)

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہونے والے ملک بھارت میں اس بار ہندو شدت پسندوں نے غنڈہ گردی کی انتہا کرتے ہوئے محرم الحرام کے دوران مسلمان عزاداروں کو ناصرف جلوس نکالنے سے روک دیا بلکہ ان پر اینٹوں اور پتھروں سے حملہ کرکے درجنوں افراد کو شدید زخمی کردیا۔ جلوس میں شرکت کے لئے جانے والے لوگوں کو سڑک پر گھیر کر مارا پیٹا گیا۔یہ افسوسناک واقعہ چند روز پہلے بھارتی ریاست بہار کے مشرقی ضلع چمپارن کے ایک قصبے ڈھاکہ میں پیش آیا جس کی آبادی تقریباً پچاس ہزار نفوس کے قریب ہے ۔

مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یہاں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے ہندی زبان کے ساتھ ساتھ اردو بھی سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ اس علاقے میں زیادہ تر مسلمان سنی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں تاہم دوسری بڑی کمیونٹی شیعہ کہی جاسکتی ہے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ محرم الحرام کے جلوس پر مسلمانوں کے دونوں فرقوں میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ شیعوں کی طرف سے تعزیہ اور ذوالجناح کا جلوس نکلتا ہے تو سنی مسلمان بھی جوق در جوق اس میں شرکت کرتے ہیں۔اس سال ہندو شرپسندوں کا ایک گروہ پچھلے کئی دنوں سے علاقے کے پرامن ماحول کو کشیدہ کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا۔

گلف ریجن میں موجود ایک بہاری نامہ نگار عبدالحکیم کے مطابق ویسے تو بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کے حواری پورے ملک میں ہی مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو بھڑکانے کی سازش کررہے ہیں مگر بہار میں تو انہوں نے انتہا کردی۔ دس محرم الحرام کی مناسبت سے بھارتی مسلمانوں نے 21 ستمبر کو اپنے اپنے علاقوں میں تعزیہ کے ساتھ عزاداری جلوس نکالا لیکن بہار میں ہندوؤں کے دو روز ”ڈاک بم“ کی وجہ سے یہاں پر تعزیہ جلوس ملتوی کردیا گیا تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ ڈاک بم ہندوؤں کا ایک تہوار یا رسم ہے‘ جس میں وہ ننگے پاؤں پیدل چل کر اپنے مذہبی مقام تک جاتے ہیں۔

ماڈرن ہندو آج کل پیدل سفر کے ساتھ ساتھ بسوں‘ کاروں اور موٹرسائیکلوں کو بھی جلوس میں شامل کرلیتے ہیں۔مسلمانوں نے امن و امان کے پیش نظر اس بار محرم الحرام کا تعزیہ دس کی بجائے بارہ محرم الحرام بروز اتوار کو نکالا تو ہندو انتہاپسندوں نے ان پر اینٹوں اور پتھروں سے حملہ کردیا جس سے درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ اس حملے کے پیچھے ہندو تخریب کار اور انتہاپسند تنظیم آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے کارکنوں کا ہاتھ بتایا جا رہا ہے‘ جنہوں نے مختلف مقامات پر عزاداری جلوس میں شامل مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

کچھ ہندوؤں نے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہوکر سڑک سے گزرنے والے جلوس پر پتھر اور اینٹیں برسائیں‘ کچھ گروہ بازار اور چوراہوں پر کھڑے ہوکر شرکاءکے ساتھ بدتمیزی اور دھکم پیل کرتے رہے۔ بھری سڑک پر لوگوں کو گھیرگھیر کر مارا پیٹا گیا۔ایک معصوم مسلمان لڑکا جو موٹرسائیکل پر مقامی ہسپتال میں اپنے ماموں زاد کی عیادت کرنے کے بعد واپس اپنے گھر جارہا تھا اسے زبردستی روک کر جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا۔ بچے نے ڈر کے مارے اور اپنی جان بچانے کے لئے یہ نعرہ لگا دیا تو پھر بھی اس کی جان نہیں چھوڑی اور ظالموں نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔

اس ظلم کی ویڈیو یو ٹیوب پر بھی دیکھی جاسکتی ہے دیگر کئی زخمیوں کی حالت بھی سنگین ہوگئی۔ کچھ عینی شاہدین کے مطابق کئی مقامات پر مسلم خواتین اور لڑکیوں کو روک کر ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی‘ انہیں زدوکوب کیا گیا اور کپڑے پھاڑ کر عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔بہار پولیس اس سارے معاملے میں بے بس نظر آرہی تھی۔ پولیس افسروں کے سمجھانے پر بھی آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے بپھرے ہوئے کارکن باز نہ آئے‘ کئی جگہ پولیس نے مسلمانوں کی جان بچانے کیلئے آر ایس ایس کے کارکنوں پر لاٹھی چارج بھی کیا تاہم پولیس حملہ آوروں پر قابو پانے میں ناکام رہی۔

بلوائیوں کا گروہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ کر جلوس کے راستے میں مختلف مقامات پر جا کھڑا ہوا جہاں سے شرکاءپر پتھر برسائے جاتے رہے۔ شہر کے ایک مقام پر سبز رنگ کا ایک جھنڈا لگا ہوا تھا جسے ہندو انتہاپسندوں نے اسلامی جھنڈا قرار دے کر پولیس پر اسے اتارنے کیلئے دباؤ ڈالا۔ان واقعات نے بھارت کے چہرے سے سیکولر ہونے کا نقاب نوچ ڈالا اور آر ایس ایس کے کارکنوں نے ایک مذہبی جلوس پر حملہ کر کے ثابت کردیا کہ بھارت جیسی ریاست آج بھی انتہاپسندی اور عدم برداشت کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔

وہاں اقلیتوں کو آج بھی تحفظ حاصل نہیں۔ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے ہی ملک کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ بہار سے ایک مسلم رکن اسمبلی نے الزام لگایا کہ شہر کے مرکزی چوک پر تو پولیس نے سکیورٹی فراہم کی تھی مگر دوسرے مقامات پر سکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے شرپسندوں نے مسلمانوں کو گھیر گھیر کر تشدد کا نشانہ بنایا۔
بھارت وہ ملک ہے جہاں پر اس کے اپنے ہی شہریوں کو لسانی اور مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش کی جاتی ہے۔

کئی علاقے جہاں مسلم اکثریت ہے اور مسلمان معاشی طور پر مضبوط ہیں اگر وہاں بھی مذہبی اقلیت مسلمانوں کا جینا حرام کردے‘ انہیں مجرمانہ کارروائی کا نشانہ بنائے اور پولیس کوئی ایکشن نہ لے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ شرپسندوں کو بلاشبہ حکومتی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ آپ غور کریں کہ وہ علاقے جہاں مسلمان ویسے ہی اقلیت میں ہیں وہاں ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہو گا۔ ہندو سماج اپنی تنگ نظری کے باعث مسلمانوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور انہیں روزگار اور ملازمتوں میں ان کا جائز حصہ نہیں دیا جاتا۔

فوج‘ پولیس اور دوسرے اہم اداروں میں مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے ‘ان کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے‘ چادر اور چاردیواری کا تحفظ صرف باتوں کی حد تک محدود ہو کر رہ چکا ہے۔ چند مسلمان جو منتخب ہو کر اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں انہیں اپنے سیاسی قائدین کی طرف سے اجازت ہی نہیں ملتی کہ وہ مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں اسمبلی کے اندر کوئی سوال اٹھا سکیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ کیا یہی وہ مذہبی آزادی ہے جس کا دعویٰ بھارت دنیا کے سامنے کرتا ہے؟ کم حیثیت کے,

روزگار اور چھوٹے کیڈر کی ملازمتیں مسلمانوں کیلئے چھوڑ دی گئی ہیں‘ کہاں گئے معاشی انصاف کے کھوکھلے نعرے اور جھوٹے وعدے؟ کئی اضلاع میں تو کم تر ملازمتیں بھی مسلمانوں کے نصیب میں نہیں ہیں۔ یہ ہے بھارت کا اصل چہرہ اور سیکولر ہونے کا نام نہاد ٹائٹل جسے انتہاپسند ہندو تنظیموں نے خود ہی بے نقاب کر دیا ہے۔ہم یقینا اعلیٰ ترین معاشرہ ہونے کا کریڈٹ نہیں لینا چاہتے مگر پاکستان میں کسی مذہبی تنظیم نے ہندوؤں کے تہوار یا سکھوں کے جلوس میں کبھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ مذہبی رسومات میں شریک کسی یاتری یا عبادت گزار کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا۔

پاکستانی اقلیتیں پوری آزادی کے ساتھ اپنی عبادات اور رسوم ادا کر سکتی ہیں۔ معاشی طور پر کسی کو ظلم یا پھر تحقیر کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ قانون کا دباؤ تو بہت دور کی بات ہے پاکستانی معاشرہ تو اپنی اخلاقی روایات کے دباؤ سے ہی دوسری اقلیتوں کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ مسیحیوں‘ ہندوؤں اور سکھوں کیلئے فراخ دلی کا مظاہرہ کیاجاتا ہے۔ ایک انسان کی دوسرے سے نفرت اور جلن کا کلچر بھارت کو برباد کر کے چھوڑے گا۔ آر ایس ایس‘ بجرنگ دل جیسی تنظیمیں اور ان کے انتہاپسند لیڈر اس بربادی کے تابوت میں خود ہی آخری کیل ٹھونکیں گے۔

The post سیکولرازم کا بھیانک چہرہ بے نقاب appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.



from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2NakT8j
via IFTTT

No comments:
Write komentar