Technology

Ads

Most Popular

Tuesday, 1 May 2018

ہم اس وقت تک نیا بجٹ پیش نہیں کریں گے جب تک۔۔۔خیبر پختونخوا حکومت نے جمہوریت کی اصل روح کے مطابق چلنے کا فیصلہ کر لیا

 

پشاور( ویب ڈیسک) خیبر پختونخوا حکومت کےاسمبلی میں اکثریت کھونے کے بعد آئندہ صوبائی بجٹ پر بھی بے یقینی کے بادل منڈلانے لگے ، حکومت نے اپوزیشن کی حمایت کے بغیر بجٹ پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے،صوبائی حکومت نے بجٹ کو اپوزیشن کے تعاون سے مشروط کرتے ہوئے فیصلہ

کیا ہے کہ اپوزیشن بجٹ منظوری آمادگی کی صورت میں ہی بجٹ پیش کیا جائیگا اس مقصد کیلئے سپیکر اسد قیصر کو اپوزیشن کیساتھ رابطوں کا ٹاسک سونپ دیا گیا جو آج اپوزیشن لیڈر سمیت تمام پارلیمانی قائدین سے دوبارہ رابطے کریں گے تاہم عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بجٹ کی حمایت نہ کرنیکا فیصلہ کیا ہے۔دوسری جانب سینیٹ کی اپوزیشن جماعتوں نے حکمراں جماعت کی جانب سے پیش کردہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے آئندہ حکومت کے لیے ‘خطرہ’ قرار دے دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شریں رحمٰن نے سیشن کے آغاز میں کہا کہ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کی عدم موجودگی پر بجٹ ‘غیر آئینی’ ہے۔انہوں نے کہا کہ ایوان سے رخصت ہونے والے حکومت کوئی قانونی جواز نہیں رکھتی کہ وہ آئندہ سال کا بجٹ پیش کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے غیر پارلیمانی رویہ اختیار کیا اور سیشن کے آغاز کے وقت ایک وزیر بھی نہیں تھا، 104 سینیٹ کے اراکین میں سے 26 ایوان میں موجود تھے جس میں سے 9 حکومتی نشستوں کے تھے۔ اپوزیشن لیڈر نے سینیٹ

چیئرمین صادق سنجرانی سے کہا کہ ‘جولوگ ووٹ کی عزت کی بات کرتے ہیں، ان کے وزیر کہاں چلے گئے؟’۔ انہوں نے زور دیا کہ ‘پاکستان کا مستقبل خطرے میں ہے اور اس پر ناقص حکومت کا ناقص بجٹ خالصتاً انتخابات سے قبل دھاندلی ہے’۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل صنعت کو درپیش خطرات کے پیش نظر انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی منڈی میں ٹیکسٹائل صنعت کی 23 فیصد مارکیٹ کھو چکا ہے، 150 ملز بند ہیں جو کہ خطرناک علامت ہے کیونکہ پاکستان کاٹن کی پیداوار کرنے والا دنیا کے پانچ بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ شریں رحمٰن نے کہا کہ ‘ہمارے گردشی قرضے 10 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں، پانی کے مسائل شدت اختیار کر چکے ہیں جبکہ بجٹ میں صرف 38 ارب روپے پانی کے لیے مختص کیے گئے جس میں کسی کی مشاورت شامل نہیں’۔انہوں نے کہا کہ پیش کردہ بجٹ محض قرضہ اتارنے اور پھر لون لینے جیسا ہے، یہ بجٹ فنانشل ایمرجنسی کے مترادف ہے جس کی وجہ سے اگلی حکومت قرضہ اتارنے میں لگی رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں امیروں کو ٹیکس کی مد میں 30 رعایت دی گئی لیکن غریب کے لیے کچھ نیہں کیا گیا، حکومت نے عوام کو کوئی سہولت فراہم نہیں کیا۔ خاتون سینیٹر نے واضح کیا کہ این ایف سی ایوارڈ گزشتہ پانچ برسوں میں تفویض نہیں کیا گیا، مذکورہ بجٹ آئین کے منافی ہے’۔ شریں رحمٰن نے بتایا کہ صدارتی ہاؤس کے لیے یومیہ 98 لاکھ روپے مختص کیے گئے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں یہ 6 لاکھ روپے یومیہ تھا اور 8 کھرب روپے کی بے ضابطگیاں حکومتی کھاتوں میں پائی گئی ہیں۔ شرین رحمٰن کا کہنا تھا کہ ایوان میں وزراء کی غیر حاضری پر تعجب ہے ‘اگر یہ پارلیمنٹ کی توہین نہیں تو کیا ہے؟’ حکومت ریاستی اداروں کا مذاق اڑانا بند کریں۔(ذ،ک)



from Hassan Nisar Official Urdu News Website https://ift.tt/2I15B7d
via IFTTT

No comments:
Write komentar