Technology

Ads

Most Popular

Thursday, 31 May 2018

ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی کہ نوازشریف العزیزیہ مل کے مالک ہوں بلکہ۔۔۔احتساب عدالت میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کے انکشافات نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا

 

اسلام آباد (ویب ڈیسک) العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جرح کے دوران پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نےبتایا کہ دوران تفتیش ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی کہ نوازشریف العزیزیہ اسٹیل مل کے مالک ہوں۔اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نیب کی جانب سے نواز شریف کے خلاف دائر العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں ،

جب کہ نامزد ملزم بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر نواز شریف کے وکیل کی جانب سے جرح کا سلسلہ جاری ہے۔ عدالت کے روبرو واجد ضیاء نے کہا کہ نواز شریف کے ڈالر اکاؤنٹ میں ویلتھ اسٹیٹمنٹ پاکستانی روپے میں بطور تحائف ظاہر کی گئی اور یہ رقم حسین نواز کی طرف سے بطور تحفہ بھیجی گئی۔واجد ضیاء نے کہا کہ 19 اکتوبر 2012 کو تین چیکس کے ذریعے 9 لاکھ ڈالر اور 15 نومبر 2012 کو 2 لاکھ ڈالر کی رقم نکلوائی گئی، ان چیکس میں ادائیگی پاکستانی روپوں میں کی گئی۔ جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ رقوم کی ادائیگی نواز شریف کے دوسرے بینک اکاؤنٹ میں پاکستانی روپوں میں ہوئی اور تاریخ ادائیگی کے دن کے ڈالر ریٹ کے مطابق کرنسی ایکسچینج کا اطلاق ہوا۔واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ سے ایکسچینج ریٹ کا تعین کیا اور یہ اندازہ لگانےکی کوشش نہیں کی کہ رقم درست ایکسچینج ریٹ کا اطلاق کر کے ظاہر کی کیوں کہ ایکسچینج ریٹ روزانہ بدلتے ہیں، ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔اس موقع پر مداخلت کرتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے کہا کہ اسٹیٹمنٹ کا ٹیکس ریکارڈ کے ساتھ موازنے کی ضرورت نہیں، ہمارا کیس مختلف ہے۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جج صاحب آپ بیٹھے ہیں، واجد ضیاء خود موجود ہیں تو یہ کیوں بول رہے ہیں، واجد ضیاء بچے تو نہیں۔واجد ضیاء نے کہا کہ یہ درست ہے کہ 5 جولائی 2010 سے 30 جون 2011 تک جو ڈالرز حسین نواز کو ملے وہ تحفہ تھے اور بینک اسٹیٹمنٹ کے مطابق 11 لاکھ 50 ہزار 459 امریکی ڈالر حسین نواز کو ملے تھے۔جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ 18 اکتوبر 2012 تک یہ رقم امریکی ڈالر اکاؤنٹ میں پڑی رہی اور نواز شریف نے یہ رقم ویلتھ اسٹیٹمنٹ مالی سال 11-2010 میں ظاہر کرنا تھا۔واجد ضیاء نے کہا کہ یہ درست ہے کہ انکم اور ویلتھ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا آغاز یکم تا 30 جون ہوتا ہے اور سال 2011 کے سرٹیفکیٹ جمع کرانے کے لیے یکم جولائی 2010 سے 30 جون 2011 کا عرصہ بنتا ہے۔جرح کے دوران واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ دوران تفتیش ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی کہ نوازشریف العزیزیہ کے مالک ہوں،جےآئی ٹی کو ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جونوازشریف کو شیئر ہولڈر یا ڈائریکٹر ظاہر کرے، ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جو ظاہرکرے کہ نوازشریف العزیزیہ مل کا کاروبار، معاملات چلاتےہوں جب کہ ،

ایسی بھی کوئی دستاویز نہیں ملی جو ظاہرکرے کہ نوازشریف العزیزیہ کےمالی معاملات دیکھتے ہوں۔سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔(س)



from Hassan Nisar Official Urdu News Website https://ift.tt/2xse3bN
via IFTTT

No comments:
Write komentar