(ڈاکٹر دوست محمد)
اگرچہ ہمارا سیکولر اور لبرل طبقہ امت کے تصور کا قائل نہیں اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد امت کے نہ ہونے کے برابر کردار کے پیش نظر اس کی اس بات میں کچھ وزن بھی ہے۔ لیکن ہمارے قبیلے کے لوگ آخر دن تک امت پر یقین واثق رکھنے کے علاوہ اس کے زندہ اور بیدار ہونے کی دعا بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں انسانیت پر ظلم ہو رہا ہو تو امت کی یاد آجاتی ہے۔ امت زندہ تھی تو سپین اور افریقہ اور مغرب تک اور مشرق میں سندھ تک مظلوموں کی آواز پر اس کے سپاہ پہنچتے اور مظلوموں کی داد رسی کرتے ہوئے ظالموں کے ہاتھ توڑتے۔
آج بھی مسلمان عوام کے درمیان امت اور اخوت کا تصور اور یقین موجود ہے اور اسی سبب امت مسلمہ کے کسی بھی حصہ پر خنجر چلے تو ہر صاحب احساس و ضمیر مسلمان تڑپ اٹھتا ہے۔ لیکن عجیب ستم ظریفی‘ بے حسی‘ سرد مہری اور اگر تلخ نوائی کے لئے معاف فرمائیں تو بے شرمی ہے کہ عالم اسلام اور امت کا جسم زخموں سے چور چور اور جانکنی کے عالم میں ہے لیکن مجال ہے کہ ترکی کے طیب اردوان کے علاوہ دیگر اسلامی ملکوں کے حکمران کوئی گرم خبر بھی دیں۔ فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر ایک صدی سے بھارت اور اسرائیل کے بد ترین مظالم کا شکار ہیں۔ لیکن چھپن اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی برسوں بعد کہیں اردوان جیسی شخصیت کے جھنجھوڑنے پر میٹنگ بھی ہوتی ہے تو بات زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس کی صرف ایک اور ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ اسرائیل اور بھارت کی پشت پر سپر طاقت امریکہ کا ہاتھ ہے اور اگر مقتدر اسلامی حکمران ان مظلوموں کی صحیح معنوں میں سیاسی‘ اخلاقی‘ سفارتی اور کچھ مالی مدد کرتے تو نہ یوں خوار و زار ہوتے اور نہ ہی بھارت اور اسرائیل ان کو تر نوالہ سمجھتے۔ اسلامی ملکوں کے اکثریتی حکمرانوں کو یہ خطرہ اور خدشہ بھی لاحق ہے کہ اسلامی دنیا کے مظلوموں کی مدد کے نتیجے میں ان کو ’’ دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے اور یوں ان کے اقتدار کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔ حالانکہ اقتدار اور عزت و ذلت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے ملک اور عزت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ لیکن یہ ایمان کہاں سے پیدا ہوگا۔ ایسا ایمان و ایقان قرآن و حدیث پر عمل کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور وہ تو ہم نے صرف ثواب کے حصول کے لئے مختص کیا ہے۔
چند دن پہلے فلسطین میں امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی پر غزہ میں نہتے فلسطینیوں کے احتجاجی جلوس پر جس بہیمانہ انداز میں اسرائیلی افواج نے گولیاں برسائیں اور 60 بے گناہ اور معصوم لوگوں کو شہید کیا تو ہمارے بعض چینلز کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی کہ ان کو شہید کہیں بلکہ خبر دیتے ہوئے معروف چینل نے انہیں صرف ’’جاں بحق‘‘ قرار دیا۔ جاں بحق تو ہر آدمی ہوتا ہے اس سے چند دن پہلے اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بیسیوں شہادتیں ہوئی تھیں لیکن پاکستان کے علاوہ شاید ہی کسی دوسرے مسلمان ملک بالخصوص سعودی عرب ‘ مصر اور دیگر خلیجی ممالک میں سے کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ ایران سے ہمیں بڑی توقعات تھیں اور امام خامنائی جیسی شخصیت سے اب بھی حسن ظن رکھتے ہیں لیکن شام اور یمن نے اس کو ایسا الجھایا کہ وہ تو وہیں کا رہ گیا اوپر سے ٹرمپ کی ’’مہربانیوں‘‘ نے اور ستم ڈھایا۔ لہٰذا لے دے کے ایک ترکی ہی رہ گیا ہے اور اس کے بس میں جو کچھ ہوتا ہے کر گزرتا ہے لیکن تابہ کے‘ گو لن نے اسے بھی تو مشکلات سے دو چار کر ہی دیا تھا۔ اس وقت فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کے بعد جس طرح ترکی نے امریکہ اور اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلا لئے ہیں اس کی تقلید نہ سہی تعاون کرتے ہوئے سارے مسلمان ملکوں کو یہ ’’جرأت رندانہ‘‘ اب کرنا ہی چاہئے۔
اگرآج بھی اپنے اختلافات کے باوجود او آئی سی کو فعال بناتے ہوئے مسلمان ممالک سنجیدہ دھمکی سے کام لیتے ہوئے بھارت اور اسرائیل اور ان کے سر پرستوں کو بتا دیں کہ ہم سفارتی تعلقات کے انقطاع کے علاوہ تجارتی تعلقات بھی سرد خانے میں ڈال سکتے ہیں۔ اگر مسلمان اقلیتوں پر یونہی ظلم و ستم جاری رہا تو اس تنبیہہ کا بہت اثر پڑے گا۔
محمود عباس جیسے قومی رہنمائوں کی قیادت میں قافلے ایسے ہی دلدلوں میں جا گھستے ہیں اور رہنما پھر بھی رہنما رہتے ہیں۔ مسلمان ملکوں سے تو جنوبی افریقہ کی انسانی غیرت و حمیت اور ہمدردی کو سلام کہ اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔
مکرر عرض ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل حل کرنے کے لئے مسلمان ممالک کو امت کی سطح پر اٹھ کر ایک آواز اور ایک قدم ہونا پڑے گا ورنہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب حکمران عوام کے دینی ‘ ملی‘ سیاسی ‘ معاشی‘ سماجی اور معاشرتی احساسات ‘ جذبات اور ضروریات سے صرف نظر کئے رکھتے ہیں تو عوامی جذبات کا لاوا آتش فشاں ضرور بنتا ہے جس کا روکنا پھر بڑے بڑوں کے بس میں نہیں ہوگا۔ پھر فیضؔ کے الفاظ میں منظر یوں ہوگا۔
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل پہ لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
(بشکریہ مشرق نیوز)
The post ظلم کی انتہا اور امت مسلمہ کا کردار appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.
from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2kcetJV
via IFTTT


No comments:
Write komentar