(ثاقب اکبر)
عراق کے الیکشن کمیشن نے گذشتہ دنوں منتخب ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کردیا ہے۔ اس کے مطابق 327کے ایوان میں کامیابی حاصل کرنے والا سب سے بڑا گروہ معروف مذہبی راہنما مقتدیٰ صدر کا ہے۔ ان کے اتحاد نے مختلف صوبوں میں 54 نشستیں حاصل کی ہیں۔ دارالحکومت بغداد میں ان کی مقبولیت دوسری جماعتوں سے زیادہ ہے۔ دوسرا بڑا اتحاد جس کا نام الفتح ہے کو 47نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اس اتحاد کے سربراہ ہادی العامری ہیں۔ انھیں عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشدالشعبی کا کمانڈر ہونے کی وجہ سے عراق میں خاص مقبولیت حاصل ہے۔ حیدر العبادی جو عراق کے اس وقت تک وزیراعظم ہیں، ان کے اتحاد نے 42نشستیں حاصل کی ہیں۔ مبصرین کے مطابق ان کی کامیابی کا تناسب امید سے کم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی حکومت کے اراکین پر کرپشن کے الزامات ہیں جس کی وجہ سے ان کے اتحاد کو نسبتاً کم کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
مقتدی صدر کی قیادت میں قائم اتحاد کا نام سائرون ہے۔ ان کا سب سے بڑا نعرہ ہی حالیہ انتخابات میں کرپشن کا خاتمہ رہا ہے۔ چوتھے نمبر پرسابق وزیراعظم نوری المالکی کا اتحاد رہا ہے جس نے 26نشستیں حاصل کی ہیں۔ ان کے اتحاد کا نام دولت قانون ہے۔ ان کے بعد کرد راہنما مسعود بارزانی کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی ہے۔ جس نے 25نشستیں حاصل کی ہیں۔ سابق عبوری وزیراعظم ایاد علاوی کی پارٹی الوطنیہ نے 21نشستیں حاصل کی ہیں۔ معروف مذہبی راہنما عمار حکیم کی الحکمہ پارٹی نے 19نشستیں حاصل کی ہیں۔ عراق کے سابق کرد صدر جلال طالبانی کی اتحادیہ میہنی کردستان نے 18نشستیں حاصل کی ہیں۔ جب کہ اسامہ النجیفی کی پارٹی القرار العراقی نے 11نشستیں حاصل کی ہیں۔ ان کے بعد دیگر پارٹیوں کی کامیابی ان سے بھی کم ہے۔
انتخابات کی دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے بڑے گروپ سائرون کے سربراہ مقتدی صدر نے خود انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ لہٰذا وہ وزیراعظم کے امیدوار نہیں ہو سکتے۔ وہ یقینی طورپر کسی اور کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے نامزد کریں گے۔ تاہم یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ نصف سے زیادہ اراکین کے ووٹ حاصل کرنا ہر گروہ کے لیے مشکل ہوگا چونکہ دیگر گروہ اس حمایت کے لیے یقیناً بڑا حصہ مانگیں گے۔
مقتدی صدر کے اتحاد میں کیمونسٹ اور سیکولر گروہ بھی شامل ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراق میں انتخابی معرکے ہمارے ہاں کے انتخابی معرکوں سے مختلف ہیں۔ ہمارے ہاں مذہبی جماعتیں سوچ بھی نہیں سکتیں کہ وہ کمیونسٹ اور سیکولر عناصر کے ساتھ مل کر کوئی اتحاد بنائیں۔
ان انتخابات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ مقتدی صدر کا گروہ ہی حکومت بنا سکے کیونکہ دوسرا اہم ترین گروہ بھی مقتدی صدر کے گروہ سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔ ایک اور بات جو ان انتخابات کے نتائج کے حوالے سے جاذب نظر ہے وہ یہ ہے کہ حیدر العبادی اور نوری المالکی دونوں بنیادی طور پر ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ حیدر العبادی سے پہلے نوری المالکی ہی کی حکومت تھی۔ نوری المالکی نے حالیہ انتخابات سے پہلے حیدر العبادی سے جدا ہو کر نئی پارٹی بنائی ہے۔ اگر حیدرالعبادی اور نوری المالکی پھر سے اکٹھے ہو جائیں پھر انھیں ہادی العامری کی حمایت حاصل ہو جائے تو ان کے لیے حکومت سازی کسی بھی دوسرے گروہ کی نسبت آسان ہو جائے گی۔ اس طرح ان کے لیے کسی بھی نسبتاً چھوٹے گروہ کو ساتھ ملانا آسان ہو جائے گا۔ دوسری طرف مقتدی صدر نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ حیدر العبادی کے علاوہ کسی بھی گروہ کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے لیے تیار ہیں۔
ان نتائج سے ایک اوراندازہ لگایا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ حکومت جو بھی بنائے گا امریکی افواج پر عراق چھوڑنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو جائے گا۔ مقتدی صدر پہلے ہی امریکی افواج سے عراق چھوڑنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ انتخابات کے نتائج سے دو تین روز پہلے بھی انھوں نے اپنا یہ مطالبہ دہرایا تھا۔ الحشد الشعبی کا امریکا کے بارے میں موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، وہ سب سے بڑھ کر امریکی اثرورسوخ کا خاتمہ چاہتی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت امریکا کی کل پانچ ہزار فوج عراق میں موجود ہے۔ امریکا کا دعویٰ تو یہ ہے کہ داعش کے خاتمے کے لیے اس نے بنیادی کردار ادا کیا ہے لیکن میدان میں داعش سے لڑنے والی قوتیں اس کے اس دعوے کو نہ فقط تسلیم نہیں کرتیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ امریکا نے داعش کو حتی المقدور بچانے کی کوشش کی ہے۔ ان لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جن کا کہنا ہے کہ داعش کو پیدا ہی امریکا نے کیا ہے۔
ان انتخابات کے جو بھی نتائج نکلے ہوں یہ امر خوش آئند ہے کہ عراق عوامی شرکت سے حکومت سازی کے مرحلے میں قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ داخلی طور پر بھی اسے یک گونہ استحکام حاصل ہو گیا ہے۔ داعش کی شکست کے بعد عراق کی فوج اور سیاستدانوں کو ایک نیا اعتماد بھی حاصل ہو گیا ہے۔ اس دوران میں حکومتی اراکین پرکرپشن کے الزامات یقیناً افسوسناک ہیں البتہ انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حوالے سے مستقبل کی حکومت کو اس پہلو سے اپنے دامن کو پاک رکھنے کی کوشش کرنا ہوگی ورنہ اسے عوام کے وسیع تر ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
The post عراق کے انتخابات اور مستقبل کی حکومت سازی appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.
from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2IACl8r
via IFTTT


No comments:
Write komentar