لاہور (ویب ڈیسک) زینتھ عرفان عرف ”موٹر سائیکل گرل“ نے کم عمر میں لاہور سے خنجرات تک کا سفر موٹر بائیک پر اپنے بھائی اور دوست کے ساتھ طے کر کے اپنی نوعیت کا ایک الگ قسم کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے ۔زینتھ اپنے والد کا خواب پورا کرنا چاہتی تھیں
معروف کالم نگار عنبرین فاطمہ اپنے نئے کالم میں لکھتی ہیں۔۔۔جو انہوں نے عزم اور حوصلے کیساتھ پورا کیا ۔ان کے اس سفر پر ”موٹر سائیکل گرل “ کے نام سے فلم بنائی گئی جو کہ حال ہی میں ریلیز ہوئی ہے فلم میں زینتھ کی زندگی کی جدوجہد دکھائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ خواتین کچھ بھی کر گزرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں ۔آج کل زینتھ عرفان کا چرچہ سوشل میڈیا سے لیکر ٹی وی چینلز اور اخبارات تک میں ہو رہا ہے گزشتہ دنوں فلم موٹر سائیکل گرل کا لاہور میں پریمئیر ہوا وہاں پر زینتھ بھی موجود تھیں ہم نے ان سے گفتگو کی جو کہ نذر قارئین ہے ۔زینتھ عرفان نے کہا کہ میں شارجہ میں پیدا ہوئی وہیں پر پلی بڑھی میرا ایک بھائی ہے جو کہ میرا حوصلہ ہے جس نے زندگی کے ہر موڑ پر میرا ساتھ دیا ۔میرے والد آرمی میں تھے میری نانی یو اے ای میں گائنا کالوجسٹ تھیں وہ پہلی پاکستانی خاتون تھیں جنہوں نے وہاں کلینک کھولا ۔ عربوں کی ایک بڑی تعداد ان کے پاس آیا کرتی تھی ۔میری دادی بھی گائنا کالوجسٹ تھیں ۔میرے پرنانا سیاحت کے شوقین تھے وہ کشتیوں پر ایکسپلور کرتے تھے۔
میرے دادا کانگریس کے ممبر بھی رہ چکے ہیں ۔میری امی کو میری نانی پاکستان لیکر آئیں یہاں ان کی ملاقات میرے ابو سے کروائی گئی یوں ان کی شادی ہوئی ۔ابو آرمی میں تھے اس لئے ان کی کبھی کہیں پوسٹنگ ہوتی تو کبھی کہیں اس لئے میری امی نانی کے پاس یو اے ای چلی جایا کرتی تھیں ۔میرے ابو میری امی کو خط لکھا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ میرے بہت سارے خواب ہیں میںان کو پورا کرنا چاہتا ہوں میں بائیک پر پاکستان کو ایکسپلور کر نا چاہتا ہوں ،گٹار وغیر ہ میں بھی دلچسپی رکھتا ہوں ۔میں بہت چھوٹی تھی کہ میرے والد کو سینے میں درد ہوئی اس وقت ان کی پوسٹنگ پشاور میں تھی میری امی یو اے ای تھیں اوروالد کا پشاور میں انتقال ہو گیا ۔ابو کو لیکر میری کوئی یادیں نہیں ہیں لیکن میں نے ابو کے خط پڑھے جو انہو ں نے امی کو لکھے خط پڑھنے کے بعد میں نے ٹھان لیا کہ ابو کا موٹر بائیک پر پاکستان کو ایکسپلور کرنے کا خواب پورا کرنا ہے ۔جہاں تک موٹر سائیکل چلانے کی بات ہے تو ہمارے گھر کے حالات بھی کچھ ایسے ہو رہے تھے کہ بس اور رکشہ افورڈ کرنا ہمارے لئے مشکل تھا ۔
خیر دبئی میں کرائسز آنے کے بعد میری والدہ ہمیں پاکستان لے آئیں میں نے اور میرے بھائی نے پیسے جمع کر کے ایک بائیک خریدی ۔اب ہم لاہو ر میںرہنا شروع ہو گئے میرے بھائی نے مجھے بائیک چلانی سکھائی میری امی نے بھی حوصلہ افزائی کی اور میرے بھائی سے اکثر کہا کرتی تھیں کہ زینیتھ کو بائیک چلانے کے حوالے سے ایکسپرٹ بنادو۔میں نے پہلے اپنے محلے میں بائیک چلانا شروع کی اس کے بعد لاہورشہر میں چلانا شروع کر دی میں جب سڑک پر جاتی تو لوگ حیران ہو کر دیکھتے تھے اور مجھے حیران کر دیتا تھا ان کا حیرانی سے دیکھنا ۔میں گھر کے اور اپنے کام کرنے کے لئے بائیک چلاتی ۔چولستان میں ایک جیپ ریلی ہوئی اس میں ،میں نے شرکت کی وہاں پر میرے اور میرے بھائی سلطان کی ہمارے ایک مشترکہ دوست عدنان حسین سے ملاقات ہو گئی ان کو میں نے اپنے خواب کے بارے میں بتایا ۔انہو ں نے تو حوصلہ افزائی کی لیکن جب کسی اور کے ساتھ اپنے خواب کے بارے میں بات کرتی تو وہ میری حوصلہ شکنی کرتے اور کہتے کہ تم جہاں جانا چاہتی ہووہاں جانا کسی بھی لڑکی کے لئے مشکل ہے یوں کچھ لوگ حوصلہ افزائی کرتے
تو کچھ حوصلے توڑ دیتے لیکن میں نے عزم کر لیا ہوا تھا کہ میں نے خنجرات تک بائیک پر جانا ہی جاناہے ۔خیر عدنان حسین نے کہا کہ اچھا بہت جلد ایک ٹور پلان کرتے ہیں میں نے ان سے کہا کہ مجھے نہیں پتہ بائیک کیسے چلاتے ہیںلیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ اپنا خواب پورا کرنا ہے ۔کچھ مہینوں کے بعد عدنان ہمارے گھر آئے اور کہا کہ میںایک ٹور پلان کر رہا ہوںبلکہ ہمارے ہی گھر میں بیٹھ کر سارا پلان کیا گیا کہ کہاں کہاں جانا ہے ۔14اگست 2015ءکو ہم گھر سے نکلے میری بائیک پر بہت سارا سامان رکھا گیا ،او آر ایس ،فرسٹ ایڈ سمیت گرم کپڑے رکھے گئے بارش آئے تو کس طر ح سے کور کیساتھ خود کو سیو کرنا ہے ۔یہاں میں یہ کلئیر کرنا چاہتی ہوں کہ اس ٹور پر میں اکیلی نہیں گئی بلکہ میرا بھائی اور دوست بھی ساتھ تھا ان دونوں نے میری بھرپور مدد کی وہ میرے ساتھ اپنی اپنی بائیک پر تھے۔ہوا یوں تھا کہ کسی نے بلاگ لکھ دیا کہ میں نے یہ ٹور اکیلے کیا ہے ،جب کسی نے غلط انفرمیشن پر مبنی بلاگ لکھا تو اس کو دیکھ کر باقیوں نے بھی یہی لکھنا اور کہنا شروع کر دیا ،میںسمجھتی ہوں کہ میڈیا
کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔مجھے یاد ہے کہ مجھے فیس بک پہ بہت ساری فرینڈ ریکویسٹس آتی تھیں لوگوں کے میسجز ان باکس میں موصول ہوتے اور کہا جاتا کہ ہمیں بھی بائیک چلانا سکھا دیں پھر میری والدہ نے مجھے کہا کہ تم فیس بک پر پیج بنا لو میں نے پیج بنا لیا یہاں میں نے وڈیوز پوسٹ کرنا شروع کیں اس پر میں نے اپنی سٹوری ڈالی ۔ہم لاہور سے اسلام آباد ،بالا کوٹ ،ناران ،کاغان ،قراقرم ہائی ،گلگت سے ہنزہ اور پھر خنجرات گئے ۔میں فیس بک پیج پر دیکھتی تو لوگوں کی رائے یہ ہوتی کہ میں جھوٹ بولتی ہوں کہ مجھے ایسا شوق ہے میں صرف شہرت لینا چاہتی ہوں کئی لوگ تو مذاق بھی بناتے تھے اورمیںلوگوں کی سوچ کو بدلنا چاہتی تھی ۔رائڈنگ کے دوران بھی لوگ تنگ کرتے اور حوصلہ توڑدیتے تھے ،اس دوران میرے بھائی اور عدنان نے مجھے بہت سپورٹ کیا ،اگر بائیک پنکچر ہو جاتی تو وہ ٹائر چینج کرتے تھے ۔عدنان کو اچھی طرح سے پتہ تھا کہ ہم نے کون کون سے ایریا میں جانا ہے اور کہاں کہاں سے گزرنا ہے ۔ہر کلو میٹر کے بعد مجھے ایسا لگتا کہ میں راستے میں ہی ہار مان لوں گی ،
موٹر سائیکل چھوٹی تھی کمر درد ہوتی تھی بخار ہوجاتا تھا ۔میںجھیل سیف الملوک پر جا رہی تھی کہ مجھے پھٹہ نظر نہیں آیا اور میں اس میں جا گری میرے گروپ ممبر ز نے مجھے اٹھایا دراصل وہاں میری بائیک کی بریک فیل ہو گئی تھی ۔اونچائی سے نیچے آنا بہت ہی خطرناک ہوتا ہے ۔خنجرات پہنچی تو وہاں پولیس فورس نے کہا کہ پہلے یہاں فارنرز آیا کرتی ہیں لیکن آپ یہاں آنے والی پہلی پاکستانی ہیں ۔خنجرات سے واپس آنے سے پہلے ہی میرا بلاگ وائرل ہو چکا تھا دوسرا ٹور میں نے کے پی کے کا کیا میں سوات ویلی گئی، کے پی کے کے بارے میں لوگوں سے سنا کرتی تھی لیکن خود جا کر دیکھنا چاہتی تھی کہ وہاں کے لوگ اور روایات کیسی ہیں ۔وہاں کے لوگوں نے مجھے بہت زیادہ حوصلہ دیا ۔کے پی کے میں ،میرا ایک ایکسیڈینٹ ہوا تھا میںایک گاﺅں سے آگے جھیل دیکھنے گئی تھی واپس آرہی تھی کہ میںدریا میں جا گری مجھے لگا کہ شاید میں اب مر جاﺅںگی یہ میری زندگی کا آخری دن ہے ۔میرے گائیڈ نے مجھے چھلانگ لگا کر نکالا میرا بیگ پانی میں بہہ رہا تھا جس میں پیسے اور موبائل تھا اس نے دوبارہ چھلانگ لگا کر بیگ بھی نکالا۔2015میں مجھ
سے فیس بک پر عدنان سرور نے رابطہ کیا اور کہا کہ میں فلم بنانا چاہتا ہوں مجھے لگا کہ ایسے ہی کوئی فراڈ کر رہا ہے پہلے بھی ڈاکومنٹری بنانے والوں نے رابطہ کیا پھر غائب ہو گئے اس بار بھی ایساہی ہو گا ۔عدنان سے میں نے رُوڈ ہو کر بات کی انہوں نے کہا کہ آپ میری فلم دیکھیں جو میں نے پہلے بنائی ہے پھر بات کرتے میں نے فلم دیکھی مجھے کام اچھا لگا اس کے بعد میں نے اپنا نمبر ان کو دیا یوں ہماری ملاقات ہوئی وہ ہمارے گھر آئے ساری کہانی میری امی اور پھر میری زبانی سنی میرے ابو کے خط پڑھے تو خاصے جذباتی بھی ہو گئے ۔پھر سکرپٹ بنایا گیا فلم کی ہیروئین کے انتخاب کا معاملہ آیا تو سوہائے علی آبرو کو سلیکٹ کیا گیا تو میں نے تو ان کا کام دیکھا نہ تھا میں جانتی نہ تھی لیکن عدنان نے مجھے کہا کہ یہ بہت اچھی اداکارہ ہیں ذمہ داری سے کردار نبھائیں گی سوہائے سے میری ملاقات ہوئی وہ میرے گھر پر بھی آئیں سوہائے نے سب سے پہلے بائیک چلانی سیکھی، انہوں نے بھی وہ سب محسوس کیا کہ جو میں نے پہلی بار بائیک چلا کر محسوس کیا تھا ۔فلم بہت اچھی بنائی گئی ہے اور سوہائے نے کام بھی بہت اچھا کیا ہے ۔ میرے خیال سے کوئی دوسری اداکارہ یہ رول نہیں کر سکتی تھی۔سوہائے نے مجھے یہ خود کہا کہ اس فلم کے بعد میں خود میں تبدیلی محسوس کر رہی ہوں۔میں جنوبی علاقوں کو بھی ایکسپلور کرنا چاہتی ہوں اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ لڑکی اور لڑکے کی جسمانی ساخت کافی مختلف ہے لیکن مائنڈ پاور ایک جیسی ہے ہم کیوں کوئی کام کرنے سے پیچھے صرف اس لئے ہٹیں کہ ہم لڑکیاں ہیں ،باقی مجھے بہت خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ گلگت میں لوگ مر د اورعورت کو برابری کے درجے پہ رکھتے ہیں ۔لڑکیوں کیساتھ فیملی کی سپورٹ ہو تو وہ دنیا کا کوئی بھی کام کر سکتی ہیں ۔فلم ضرور دیکھیں یہ آپ کو اپنے خواب سچ کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔(ف،م)
from Hassan Nisar Official Urdu News Website https://ift.tt/2jf43Zc
via IFTTT
No comments:
Write komentar