Technology

Ads

Most Popular

Saturday, 1 September 2018

محترمہ فاطمہ ثریا بجیا کی مختصر داستان حیات

 


فاطمہ ثریا بجیا پاکستان ٹیلی وژن اور ادبی دنیا کی معروف شخصیت تھیں۔ وہ ناول نگاری، ڈراما نگاری کے حوالے سے بھی مشہور ہیں۔ انہوں نے ٹیلی وژن کے علاوہ ریڈیو اور اسٹیج پر بھی کام کیا۔ سماجی اور فلاحی حوالے سے بھی ان کے کام قابل قدر ہیں۔

محترمہ فاطمہ ثریّا بجیا کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے جیسا کہ بھائیوں میں احمد مقصود اور انور مقصود جبکہ بہنوں میں سارہ نقوی، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق المعروف زبیدہ آپا ہیں۔

پیدائش: یکم ستمبر 1930ء
جائے پیدائش: حیدرآباد، دکن بھارت
وفات: 10 فروری 2016 (86 سال)
جائے وفات: کراچی، پاکستان
تعليم: بنیادی تعلیم
مادر علمی: گھر
پیشہ: مصنفہ

اعزازات:
جاپانی اعلی سول اعزاز، صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ہلال امتیاز

ابتدائی زندگی:
بجیا یکم ستمبر 1930ء کو بھارتی شہر حیدرآباد کے ضلع کرناٹک میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے باقاعدہ کسی اسکول سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ لیکن سنہ 2007ء میں اپنی تحریروں کی بدولت عبداللہ دادابھائی یونیورسٹی نے انہیں اعزازی طور پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی تھی۔

پاکستان ہجرت:
ایک غیرملکی ویب سائٹ وائس آف امریکہ کو دئیے گئے انٹرویو مں انہوں نے ہجرت سے متعلق کہا کہ ’’پاکستان ہجرت کی تاریخ مجھے ازبر ہے کیوں کہ 11 ستمبر 1948ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال ہوا تھا اور 18 اکتوبر کو ان کے چہلم کے دن ہم پاکستان آئے تھے۔

قلم سے رشتہ:
بجیا نے 14 برس کی عمر میں 250 صفحات پر مشتمل ایک مکمل ناول تحریر کیا تھا، جس کی 1000 کاپیاں چھپیں تھیں۔ پھر جس دور میں انہوں نے ٹی وی کے لئے لکھنا شروع کیا اس وقت ڈرامے کی ایک قسط کے صرف ڈھائی سو روپے انہیں ملا کرتے تھے۔ حالانکہ بقول بجیا ”حیدرآباد دکن میں ان کے یہاں 60 ملازم ہوا کرتے تھے۔“ ان باتوں کا ذکر مرحومہ اکثر اپنے انٹرویوز میں بھی کیا کرتی تھیں۔

فاطمہ ثریا کا پہلا ڈرامہ ’قصہ چہار درویش‘ تھا جو انہوں نےملک میں ٹی وی نشریات کے آغاز سے صرف ایک سال بعد یعنی سنہ 1965میں لکھا تھا۔ ’قصہ چہار درویش‘ اسلام آباد سینٹر سے ٹیلی کاسٹ ہوا تھا جس نے خوب شہرت پائی۔ اس قدر شہرت کہ بجیا کو اس کے بعد مسلسل ڈرامے تخلیق کرنا پڑے۔ ’الف لیلیٰ‘، ’بنو عباس‘ وغیرہ اسی دور کے لازوال ڈرامے ہیں، جبکہ بجیا نے ٹیلی فلمز بھی لکھیں اور اس کا آغاز ’چندن کا پلنا‘ سے کیا تھا۔

بجیا کا یہ کارنامہ بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ہی مطبوعہ ناولز کو ڈرائی تشکیل کی صورت بخشی۔ مثلاً ’شمع‘، ’افشاں‘، ’عروسہ‘ اور ’تصویر کائنات‘ وغیرہ جن کی مصنفہ اے آر خاتون اور اسما خاتون تھیں۔ لیکن، انہیں بجیا نے ٹی وی ڈرامے کا روپ دیا اورامر کر دیا جبکہ ’آگہی‘ اور ’انا‘ سمیت انہوں نے سینکڑوں ڈرامے لکھے۔

بجیا ’پاکستان جاپان کلچر ایسوسی ایشن‘ سے بھی کئی سال تک وابستہ اور صدر کے عہدے پر فائز رہیں اور اسی عرصے میں انہوں نے ایک جاپانی ناول پر اردو میں اسٹیج ڈرامہ تخلیق کیا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے جاپانی طرز کی شاعری ’ہائیکو‘ اور ’واکلا‘ کو 11 پاکستانی زبانوں میں متعارف بھی کروایا۔

ان خدمات کے عوض انہیں 1999ء میں جاپان کے شہنشاہ کی طرف سے خصوصی طور پر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ملکی ایوارڈز کی بات کریں تو انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت ان گنت ایوارڈ مل چکے تھے۔

بیماری اورانتقال:
فاطمہ ثریا بجیا طویل عرصے سے گلے کے کینسر میں مبتلا تھیں جس کے سبب ان کی زندگی کے آخری ایام گھر اور بستر تک محدود رہتے ہوئے گزرے۔ بالاخر 10 فروری 2016ء کو داعی اجل کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ادب، علم و آگہی، اخلاق و مروت اورمہر و وفا کی پیکر بجیا اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ مرحومہ کو کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

The post محترمہ فاطمہ ثریا بجیا کی مختصر داستان حیات appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.



from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2LNOrYG
via IFTTT

No comments:
Write komentar