Technology

Ads

Most Popular

Saturday, 1 September 2018

60 کی دہائی میں شریف خاندان کی مالی حیثیت کیاتھی ۔۔۔۔۔ ؟ نسلوں سے رئیس ہونے کا دعویٰ کرنے والی مریم نواز کے منہ میں گھنگنیاں ڈال دینے والی تحریر منظر عام پر آگئی

 

لاہور(ویب ڈیسک)میرے سامنے ایک تصویر رکھی ہے جو غالباً 60 کی دہائی کے وسط میں کھنچی گئی ۔ تصویر میں نظر آرہا ہے کہ نواز شریف کے والد مرحوم میاں محمد شریف کچھ ہم لوگوں کو اتفاق فونڈری کی کچھ اہم مصنوعات سے متعارف کرا رہے ہیں۔ ایک لمبی میز پر ایک درجن کے قریب

نامور کالم نگارجواد نظیر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔چھت کے پنکھے کھلے پڑے ہیں ۔ غالباً یہ ان پنکھوں کی اسمبلی لائن ہے ، کیونکہ تصویر کے انتہائی دائیں جانب ایک کم سن بچہ پیچ کس لئے ایک پنکھے کے پیچ کس رہا ہے ۔ بچے کی آنکھیں آسمان کو تک رہی ہیں ان آنکھوں میں سب لوگوں کے لئے حقارت اور لاتعلقی نظر آرہی ہے۔ اب میں ایک اور تصویر اٹھاتا ہوں جس میں جنرل یحییٰ خان کوٹ پتلون پہنے کھڑے ہیں ۔ یہ تصویر غالباً اتفاق انڈسٹری کے کسی کھلے میدان میں لی گئی ہے ۔ یہاں بھی ایک پلیٹ فارم پر ڈیزل انجن کھلے پڑے ہیں ایک باوردی جنرل یحییٰ کو اپنی چھڑی کے اشارے سے ڈیزل انجنوں کے بارے میں بریفنگ دے رہا ہے۔تصویر میں دس پندرہ لوگ اور بھی موجود ہیں ۔ آخری سرے پر سولہ سترہ یا اٹھارہ سالہ نواز شریف سوٹ اور ٹائی میں ملبوس کھڑے ہیں۔ یہ دونوں تصویریں بتاتی ہیں کہ 70 کی دہائی کے آخر تک شریف خاندان کی مالی حیثیت کیا تھی ۔ جن لوگوں نے ساٹھ کی دہائی میں شعور سنبھالا انہیں یاد ہو گا کہ ان دونوں زیادہ تر اشتہارات ریڈیو پاکستان پر چلا کرتے تھے ۔ ان اشتہارات میں سے اتفاق

اور نواب ٹیوب ویل کے اشتہارات زیادہ ہوتے تھے ۔ ہاں ساتھ میں گندھار اانڈسٹریز کے بیڈ فورڈ رک کے اشتہارات بھی چلا کرتے تھے ۔ 60 کی دہائی میں ڈاکٹر محبوب الحق 22 خاندانوں کی مشہور عام فہرست شائع کر چکے ہیں جن کے پاس پاکستان میں سب سے زیادہ دولت تھی ان میں اتفاق گروپ یا اتفاق انڈسٹری کا نام دور در تک نہ تھا ۔ جب میاں شریف کے کارخانے پنکھے اور ڈیزل انجن بنا رہے تھے پاکستان میں درجنوں فیکٹریاں یہ سب چیزیں بنا رہی تھیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میاں شریف 60 کی دہائی میں ایک متمول شخص ضرور تھے لیکن کروڑ پتی یا ارب پتی ہر گز ہر گز نہیں تھے ۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف خاندان خصوصاً ان کی بیٹی مریم کس برتے پر دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم تو نسلوں سےرئیس تھے ۔میرے دادا ارب پتی تھے ۔ انہی عربوں سے ہم نے لندن میں جائیداد خریدی ۔ یہ سب جھوٹ اور لغو باتیں ہیں ۔ تصویریں جھوٹ نہیں بولا کرتیں ۔ ان تصویروں کو آپ کے ڈرائنگ روموں سے ہی اتار کر مجھ تک پہنچایا گیا تھا ۔مقصد کیا تھا ۔یہ پھر کبھی بتاؤں گا ۔ نواز شریف کا عروج و زوال سکھا شاہی ایک بے مثال مرقع ہے ۔

پاکستان میں سکھا شاہی کے جگہت گرو جنرل ضیاء نے 81 ء میں پکڑ کر پنجاب کا وزیر خزانہ بنا دیا ۔ 85ء میں اپنے کلے کے زور پر نواز شریف کو وزارت اعلیٰ تک پہنچایا ۔ جنرل ضیاء کے بعد بھی جرنیل انہیں گود میں جھلاتے رہے اور اوپر سے اوپر پہنچاتے رہے ۔ اس سارے دور میں شریف خاندان کی طاقت بقول اکبر الہ آبادی کچھ یوں تھی ۔۔ اب تو ہے عشق بتاں میں زندگانی کا مزہ ۔۔۔۔۔۔۔جب خدا کا سامنا ہو گا تو دیکھا جائے گا ۔ ۔خدا کا سامنا تو ابھی نہیں ہوا مگر میاں نواز شریف اور ان کے خاندان (شہباز شریف اور ان کے خاندان کی باری آنے والی ہے ) کی حالت کچھ یوں ہو گی۔۔ ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے۔۔۔اپنے زوال کی بنیادیں بھی شریف خاندان نے خود رکھیں ۔ جھوٹ در جھوٹ بولتے ہوئے ٹی وی انٹر ویوز دیئے ، بیانات ریکارڈ کرائے ، اسمبلی میں تقریریں کیں ، قوم سے خطاب کیا ، عدالت میں جعلی دستاویزات دیں اور پھر ایک ایک کر کے سارے پکڑے گئے ، ان سات سرداروں کی طرح جو بغیر ٹکٹ چیکر نے ٹکٹ مانگا پہلا سردار یہ کہہ کر گز ر گیا کہ پچھلے کے پاس ہیں اس سے پچھلے نے کہا میرے پچھلے کے پاس ۔ جب آخری سردار کی باری آئی تو اس نے سب کو مخاطب کر کے زور سے آواز لگائی ۔ سارے واپس آجاؤ ۔۔آپاں پھڑے گئے آں اڈیالہ میں ابھی سرداروں میں سے تین پہنچے ، باقی چار کا انتظار ہے ، دیکھیں کب پہنچتے ہیں۔(ش۔ز۔م)



from Tareekhi Waqiat Official Urdu Website https://ift.tt/2oq5nLo
via IFTTT

No comments:
Write komentar