Technology

Ads

Most Popular

Saturday, 29 September 2018

جدید دنیا میں مسئلہ کشمیر کی حیثیت

 

ظہیر اختر بیدری

برصغیر ہند و پاکستان میں شاید ہی عوام میں کوئی ایسا شخص ہوگا جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کا خواہش مند نہ ہو لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ حکمران جنتا پارٹی عوام کی اس جائز اور فطری خواہش کے خلاف مستقل مشکلات پیدا کر رہی ہے۔تازہ اطلاعات کے مطابق کانگریسی رہنما اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھوکے خلاف ایک 21 سالہ پرانا مقدمہ دوبارہ کھول دیا ہے۔ ان پر الزام تھا کہ سدھو اور ان کے ایک دوست کی گاڑی سے ایک شخص 1998 میں ہلاک ہوگیا تھا۔ 1999 میں سیشن کورٹ نے سدھو اور ان کے دوست کو بری کردیا تھا جسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 21 سال بعد اس مقدمے کو دوبارہ زندہ کیوں کیا گیا؟

سدھو نے پچھلے مہینے میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور پاکستان کے دورے کے دوران اور ہندوستان واپس جاکر مسلسل یہ مطالبہ کررہے تھے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات ہونے چاہیے۔ یہ خواہش صرف ایک سدھوکی نہیں بلکہ انتہا پسند انسان دشمن عناصر کے علاوہ ہند و پاک کے ہر اس فرد کی ہے جو برصغیر میں امن اور برصغیر کے عوام کی خوشحالی چاہتا ہے، لیکن بھارت کے انسانیت سے محروم عناصر ہمیشہ امن اور مذاکرات کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے آرہے ہیں۔ بھارت کے سابق وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو ایک روشن خیال انسان تھے اگر وہ چاہتے تو اپنی زندگی میں اس مسئلے کو حل کراکر برصغیر ہی نہیں جنوبی ایشیا میں مضبوط امن کی بنیاد رکھ سکتے تھے۔

سیاسی رہنما اپنے دور میں جذباتی یا متعصبانہ فیصلے کرکے آنے والی نسلوں کو تباہیوں سے دوچار کردیتے ہیں۔بد قسمتی یہ ہے کہ ان کے جانشین اپنے بزرگوں کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے بجائے اور زیادہ غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ 71 سال میں 3 جنگیں تو دونوں ملکوں نے لڑیں، جنگجو تو پیدا ہوئے لیکن ایسے لوگوں کا قحط الرجال رہا جو دونوں ملکوں کے درمیان امن و آشتی کی فضا پیدا کر سکیں۔ بھارت علاقے کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ اظہار آزادی کا حامل ملک ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان غیر منطقی تنازعات کے خلاف تیز اور مضبوط آواز اٹھانے والوں کا بھارت میں قحط ہے۔

بد قسمتی سے بھارتی میڈیا دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے بجائے تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتا آرہا ہے۔نریندر مودی وزیراعظم بھارت کا تعلق ایک انتہائی نچلے طبقے سے ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی سے سب سے زیادہ نقصان نچلے طبقات کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی کوشش نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے نریندر مودی سے کرنا ایک منطقی بات ہے لیکن آنکھوں پر جب تعصبات اور نفرتوں کی پٹی بندھ جاتی ہے تو انسان انسان نہیں رہتا بلکہ چو پایا بن جاتا ہے۔

نریندر مودی سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی امید رکھنا اس لیے غلط ہے کہ مودی گجرات کا وہ قاتل ہے جس کے نوحے ہندو شعرا بھی لکھتے رہے۔بی جے پی کی نظریاتی رہنمائی آر ایس ایس مہا سبھا جیسی کٹر جماعتیں کر رہی ہیں۔ مسئلہ صرف کشمیر کا نہیں ہے۔ برصغیرکے ایک ارب سے زیادہ مفلوک الحال عوام کا ہے اگرکشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف روایتی اسلحے کی دوڑ جاری رہے گی بلکہ ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ یہ صورتحال مخدوش ہی نہیں بلکہ انتہائی خطرناک بھی ہے کیونکہ انڈیا میں مذہبی جنون میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

جو دونوں ملکوں کی راہ میں دیوار بنا ہوا ہے۔پاکستان میں روایتی اشرافیائی راج ختم ہوگیا ہے اب ایک مڈل کلاس جماعت برسر اقتدار آئی ہے اور ماضی کی حکومتوں کے بر خلاف اپنے پڑوسیوں سے تعلقات بہتر بنانے میں زیادہ سنجیدہ ہے۔ پاکستان کا دانشور طبقہ اس حوالے سے کوئی موثر رول اس لیے ادا نہیں کرسکتا کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں پاکستان کی حکومت روڑہ بنی ہوئی نہیں ہے۔ ماضی میں دونوں ملکوں کے وہ بہی خواہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے بہت کوششیں کرتے رہے جن میں بھارتی بحریہ کے چیف رام داس اور نرملا دیش پانڈے جیسے متحرک لوگ شامل تھے اب یہ نسل بوڑھی ہوگئی،

کچھ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے اس لیے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جسے نئی بھارتی نسل کو پرکرنا چاہیے۔بھارت اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہند سے لے کر مسئلہ کشمیر تک اصل رکاوٹ عقائد و نظریات ہیں۔ بھارت اور پاکستان کی نوجوان اور تعلیم یافتہ نسلیں سائنس ٹیکنالوجی، تحقیق اور انکشافات کی دنیا میں زندہ ہیں۔ اس حقیقت پسندانہ پس منظر میں تقسیم ہند کا فلسفہ آوٹ ڈیٹڈ ہوکر رہ گیا ہے۔بیسویں صدی کی دوسری نصف صدی سے تحقیق و انکشافات اور انسان کے چاند پر ہو آنے اور مریخ کی طرف پرواز کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کی جانے والی ناقابل یقین ترقی نے عقائد و نظریات کو بے معنی بناکر رکھ دیا ہے،

اس کھلی حقیقت کے سامنے ملک و ملت دین دھرم کے تعصبات سوائے جہل کے کسی اور سوچ کی نمایندگی نہیں کرتے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارتی کلچر زیادہ ترقی پسندانہ ہے کیا بھارت کا دانشور، مفکر، ادیب، شاعر اور فنکار دنیا کی نئی حقیقتوں سے واقف نہیں؟ ان نئی حقیقتوں کے تناظر میں مذہبی انتہا پسندی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔اب ایک بالکل نئی دنیا خواہ دیر سے ہی صحیح تشکیل ہونے جارہی ہے جس میں انسان کی نئی تعریف کا تعین ہوگا۔ عقائد و نظریات اپنے دور کے علم اور معلومات کا عکس ہوتے ہیں۔

اگر بھارت کا حکمران طبقہ ان حقائق کو سمجھنے لگے تو مسئلہ کشمیر اور تعلقات کی کشیدگی بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے اہل دانش کی ذمے داری ہے کہ تنازعات کو حل کرنے کے لیے ان جدید علوم اور معلومات سے بھی کام لیں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

The post جدید دنیا میں مسئلہ کشمیر کی حیثیت appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.



from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2N6iJX7
via IFTTT

No comments:
Write komentar