پشاور (ویب ڈیسک) خیبر پی کے کے پہاڑی سلسلے طور غر کی ایک دور افتادہ چوٹی میں واقع ایک گاؤں میں بولے جانی والی زبان کو بین الاقوامی شناخت مل گئی ہے اور اب یہ باضابطہ طور پر زبانوں کا ریکارڈ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ایتھنولاگ کا حصہ بن گئی ہے۔
ایتھنولاگ میں اس سے قبل 7096 زبانیں شامل تھیں، منکیالی کی شمولیت سے اب دنیا کی کل باضابطہ طور پر مندرج شدہ زبانوں کی تعداد 7097 ہو گئی ہے۔ اس زبان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف ایک گاؤں میں بولی جاتی ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد صرف چار سے پانچ سو کے درمیان ہے۔ خیبر پی کے کے دورافتادہ اور دشوار گزار علاقے کی اس زبان کا اس سے قبل کوئی مخصوص نام نہیں تھا۔ آس پاس کے علاقے والے اسے منکیالی، تراوڑی، تراوڑہ اور دوسرے ناموں سے جانتے تھے، جب کہ خود یہ لوگ اپنی زبان کو عام طور پر ’اپانڑ بیای‘ یعنی ’اپنی بولی‘ کہا کرتے تھے۔ تاہم اب اس زبان کو منکیالی کے نام سے ایتھنولاگ میں مندرج کرا لیا گیا ہے اور خود اس زبان کے بولنے والوں نے بھی اسی نام پر اتفاق کر لیا ہے۔ اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ماہرِ لسانیات ڈاکٹر عظمیٰ انجم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کسی زبان کے ایتھنولاگ میں اندراج کے لیے چند ضروریات ہوتی ہیں جنھیں پورا کرنے پر ہی اس کا نام باضابطہ زبانوں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس اندراج میں امریکہ
کی ناردرن ٹیکسس یونیورسٹی کی ڈاکٹر صدف منشی نے مرکزی کردار ادا کیا اور انھی نے منکیالی کی ڈاکیومینٹیشن میں مدد دی۔ یہ زبان صوبہ خیبرپی کے برف سے ڈھکے کوہستانی سلسلے طورغر اور ضلع مانسہرہ کے سنگم پر ایک پہاڑ کی چوٹی پر آباد گاؤں ڈنہ میں بولی جاتی ہے۔ اس گاؤں تک حال ہی میں سڑک تعمیر کی گئی ہے جس سے قبل یہ آس پاس کے علاقوں سے کٹا ہوا تھا۔ شاید اسی جغرافیائی تنہائی کی وجہ سے یہاں منکیالی زبان محفوظ رہ گئی، ورنہ اس کے آس پاس کے علاقوں میں ہندکو اور پشتو زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے درمیان ڈنہ کی حیثیت ایک جزیرے کی سی ہے۔ ایتھنولاگ کے اندراج میں لکھا ہے کہ اس زبان کا مستقبل خطرے میں ہے۔ بہت چھوٹی زبان ہونے کی وجہ سے منکیالی میں کوئی ادب نہیں پایا جاتا اور نہ ہی کوئی تحریر ملتی ہے۔ منکیالی بولنے والے محمد پرویز کہتے ہیں: ’آنے والی ایک دو نسلوں کے بعد یہ زبان بالکل ختم ہو جائے گی۔ ہمارے گاؤں میں بہت سارے گھر ایسے ہیں جنھوں نے باہر شادیاں کر رکھی ہیں، وہ عورتیں پشتو یا ہندکو بولتی ہیں۔ ان کے بچے بھی اپنی ماں ہی کی زبان بولتے ہیں، اس لیے ’اپنی زبان‘ کے بولنے والوں کی تعداد ہر سال گھٹتی چلی جا رہی ہے۔‘(ف،م)
from Hassan Nisar Official Urdu News Website https://ift.tt/2Jy1v3u
via IFTTT
No comments:
Write komentar