الجزیرہ چینل کےمشہور متنازعہ پروگرام الاتجاہ المعاکس میں سعودی شہزادے کے انٹرویو میں بیان ہونے والی باتوں کو لیکر اٹھائے جانے والے سوالات ۔
۱۔عرب کتنے عرصے تک آزمائشی چوہے بنے رہیںگے؟
۲۔ کیا عربوں کی ثقافت، پالیسیاں حتیٰ ان کےمذہبی عقائد تک کو بیرونی قوتیں کنٹرول کرتی رہیں گی ؟
۳۔کیا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے تسلیم نہیں کرلیا کہ سب سے بڑی اور وسیع مذہبی تحریک وھابیت امریکی خواہش کے مطابق کیمونزم کے مقابلے لئے بنائی گئی تھی ؟
۴۔کیا ایک صدی تک جاری رہنے والی اس تحریک پر اب بیرونی دباو ٔکے سبب قابوپانے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے ؟
۵۔کیا محمد بن سلمان نے یہ اعلان نہیں کیا کہ وہ ان انتہا پسندوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے کہ جنہوں نے ملک میں دہائیوں تک حکمرانی کی ہے؟
۶۔کیا اب سعودی عرب میں اداکاراور فنکار مذہبی علما ءسے زیادہ اہمیت و عزت کے حامل نہیں ہوگئے ہیں ؟
۷۔کیا سعودی عرب لاس ویگاس آف عرب بننے نہیں جارہا ہے کہ جہاں اب کچھ علماء و مفتی بھی جوئے کےکھیل کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں ؟
۸۔کیا اب وھابی بانی عبداللہ ابن وھاب کی جگہ گلوکارہ اور گلوکار نہیں لے رہے ہیں ؟
لیکن ان سوالات کے مقابلے میں چند اور سوالات بھی پیش ہوسکتے ہیں
۱۔کیا حکومت اور حکمران کو زمانے کے مطابق نہیں چلنا چاہیے ؟
۲۔کیا پچھلی ایک صدی سے پورے عالم اسلام میں صحیح وخالص مذہب کے نام پر امریکہ اور سعودیہ کی جانب سے تبلیغ کیاجانے والی وھابی فکر کوئی مذہب نہیں بلکہ ، ایک اسٹریٹجک ضرورت تھی؟
۳۔کیا وقت کے ساتھ چیزوں کو بدلنا نہیں چاہیے؟کیا معاشرے وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے ہیں، بعض ثقافتوں کو مسترد کرتے ہیں اور نئی ثقافتوں کو برداشت کرتے ہیں؟
۴۔کیا یہ سعودی عرب کی قیادت پر شدت پسندوں کے ساتھ ٹریڈنگ کا الزام عائد کرنے کے لئے غیر مناسب وقت نہیں ہے؟کہ اب وہ اس شدت پسند وھابی سوچ سے چھٹکارہ پانا چاہتا ہے ؟
۵۔آخر مفتیوں کی جگہ نئی نسل کو بیٹھانے میں کیا حرج ہے، ایک ایسی نئی نسل جو سائنس، ٹیکنالوجی اور میڈیا کے میدانوں سے واقف ہو۔؟
دوسری جانب سے سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کے بیان کے بعد کہ قطرکی رجیم تباہ ہوجائے گی اگر وہ ٹرمپ کو پیسے نہ دے تو ۔۔‘‘عرب الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی ٹاپ کی سٹوری بناہوا ہے ۔
سعودی عرب کا سرکاری چینل الاخباریہ اس سلسلے میں تبصر ہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’قطر اخوان المسلمون اور القاعدہ نواز شدت پسند گروپ النصرہ فرنٹ کی حمایت کرتا ہے ،دہشتگردوں اور شدت پسندوں کی حمایت کرنے والے قطر کو اپنے گریبان میں جانکنا چاہیے ۔
سعودی سرکاری چینل الاخباریہ سے گفتگو کرتے ہوئے قطری بیرون ملک اپوزیشن کے ایک رہنماخالد الھیل کا کہنا تھا کہ’’ قطری نظام کی تباہی ایک ضروری بات ہے کہ جس نے گلف کونسل سے کئے تمام وعدوں کی مخالفت کی ہے ‘‘۔
ادھر دوسری جانب ٹرمپ کے الفاظ میں جب کہا گیا تھا کہ ’’خلیجی ریاستیں امیر بن ہی نہیں سکتیں تھیں اگر امریکہ کی حمایت نہیں ہوتی تو ‘‘میں کسی خاص ملک کا نام نہیں لیا گیا تھا لیکن یہ بات واضح ہے کہ وہ تمام خلیجی امیر ممالک سے مخاطب تھا ۔
قطری تجزیہ کار علی الھیل کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا اصلی مخاطب سعودیہ ہے کیونکہ یہ سعودی شہزادہ ہے جس نے امریکہ کا طویل دورہ کیا اورتمام تر ڈپلومیٹک معیارات کو روندا اور ٹرمپ نے کھلے لفظوں سعودی عرب کی کئی بار توہین کی ۔
سعودی عرب اپنی عوام کی بہتری کے لئے خرچ کرنے کے بجائے بڑی بڑی رقمیں ٹرمپ کو دینے پر مجبور ہے ۔ٹرمپ کے بیان اور اس کے بعد سعودی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد قطر کے ساتھ موجود کشیدگی میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ شائد طرفین میں معاملات ٹھیک ہونے کی جانب جارہے ہیں لیکن موجودہ صورتحال بتاتی ہے کہ حالات مزید کشیدگی کی جانب گامزن ہیں ۔طرفین میں جاری اس تنازے میں یہ ٹرمپ ہی ہوگا کہ وہ اپنے سات ٹریلین ڈالر کن کن خلیجی ملکوں سے کتنی مقدار میں حاصل کرے گا لہذا اس موضوع پر بحث ایک فضول سی چیز ہے ۔بشکریہ فوکس مڈل ایسٹ
The post عرب میڈیا کے ٹاک شوز میں پیش ہونے والے اہم سوالات appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.
from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2KnkKy0
via IFTTT


No comments:
Write komentar