باسٹھ تریسٹھ انچ کی شیروانی۔۔۔۔نواز شریف اور مریم نواز کو جیل بھیجنے کے بعد پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کیا رخ اختیار کرنے والا ہے ؟ جانیے
لاہور (ویب ڈیسک) جنگیں آج بھی لڑی جا رہی ہیں مگر ایسی خونریزی کے بھی کچھ اصول ہیں- کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی سچی جھوٹی خبر پر امریکہ جیسی عالمی طاقت کے بمبار طیارے بھی جنگ میں کود پڑتے ہیں، مگر پاکستان جیسے ممالک میں اصلی جنگ تو کیا سیاسی جنگ کے بھی اصول نہیں۔
بالواسطہ جنگ میں کرائے کے جنگجوؤں کے ذریعے لڑی جانے والی پہلی افغان جنگ پر تو ہماری عسکری و سیاسی قیادت آج پشیمان ہے، مطیع اللہ جان اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ مگر ملکی سیاسی عمل میں بالواسطہ اور بلاواسطہ مداخلت کی پرانی حکمت عملی پر جس دھڑلے سے آج عمل ہو رہا ہے اس پر کسی کو شرمندگی نہیں۔ پہلی افغان جنگ کے مجاہدین کی مانند ”جہاد فی سبیل اللہ“ جاری ہے۔ اس نام نہاد جہاد میں بھی اراکین اسمبلی کی نااہلی سے متعلق آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی شقیں اس امریکی سٹنگر میزائل کا کام کر رہی ہیں جس نے پہلی افغان جنگ کا پانسا پلٹ دیا تھا- سٹنگر میزائل جب مجاہدین کے ہاتھ لگا تو جہاد ایک ویڈیو گیم بن کر رہ گیا جس میں دشمن کے طیارے پر فائر کر کے مجاہدین مڑ کر بھی نہ دیکھتے تھے- آئین کا باسٹھ تریسٹھ بھی آج سٹنگر میزائل کی مانند ہمارے ہاتھ لگ گیا ہے۔ الیکشن سے پہلے حکمران جماعت ن لیگ کے راہنماو¿ں کی تواتر سے نا اہلی بعد از عدالتی بیانات و فیصلوں کے ن لیگ مخالف جماعتوں کیلئے اقتدار کی راہ ہموار کر رہی ہے- نگران حکومت کے قیام کے بعد ن لیگ اور نیب کے بیچ آنکھ مچولی میں اضافہ ہو جائےگا- نوازشریف اور مریم نواز کو جیل کی سزا ہونے کے بعد متوقع عوامی احتجاج کو روکنے اور حکمران جماعت کی الیکشن مہم کو قابو کرنے کیلئے چھاپوں اور گرفتاریوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائےگا-
ن لیگ کے سرکردہ سیاسی راہنماو¿ں کو اس وقت کیلئے پہلے سے مختلف انکوائریوں کے سلسلے میں نیب کے نوٹسز جاری کئے جا چکے ہیں-پالیسی سازوں اور فیصلہ سازوں کیلئے مسئلہ اب کرپشن نہیں بلکہ یہ ہے کہ نواز شریف کو جیل بھیج کر کہیں سیاسی طور پر الیکشن میں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کی نا اہلی بھی بہت سے لوگوں اور اداروں کیلئے مرغ باد نما ہے۔ اب پہلے سے تیار شدہ شیروانیوں کے سائز میں تبدیلی تو ہونے سے رہی اسلئے درزیوں کو حکم ہے کہ اپنی باسٹھ اور تریسٹھ انچ کی انچی ٹییپ ہاتھ میں رکھیں اور آئندہ وزیر اعظم کی تلاش کےلئے پیمائش کا کام جاری رکھیں۔ ان کا اپنا قد پورا ہے اور نہ ہی سینہ کشادہ بس بیچارے تنہائی میں آرڈر والی شیروانی پہن کر آئینہ کے سامنے خوش ہوتے رہتے ہیں- کبھی بہت دل خراب ہو تو وزیر اعظم کی تیار شیروانی خود پر ٹانگے بازار میں نکل پڑتے ہیں- افسوس یہ کہ بازار میں کوئی دھوکہ نہیں کھاتا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ یہ وزیر اعظم نہیں ایک درزی ہے جو مال آرڈر پر تیار کرتا ہے۔مختصر یہ کہ قربانی کے جانور کا صحت مند اور پاک ہونا ضروری ہے۔
آئین میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کے کردار کو بلند ترین اس لئے رکھا گیا تھا کہ انکا اختیار بھی بلند ترین ہو گا۔اگر حکمرانوں کو اپنی اپنی انچی ٹیپوں سے ماپا جائے گا اور عوام کے مینڈیٹ کو ایسی سازشوں سے چوری کیا جائے گا تو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ سیاستدان باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترتا ہے یا نہیں- اسلام آباد ہائی کورٹ نے خواجہ آصف کے بطور وزیر دفاع اور وزیر خارجہ اقامہ رکھنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے- اب معزز ججوں سمیت کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک میں وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کی کیا اوقات ہوتی ہے۔ یہ بیچارے تو خارجہ اور نہ ہی دفاع کی پالیسیاں طے کر سکتے ہیں- ملک کے وزرائے اعظم کے حالات تو ہم پچھلے ستر سال سے دیکھ رہے ہیں- پھر کہتے ہیں سیاستدانوں کو صادق اور امین ہونا چاہیے۔ انگریزی میں کہتے ہیں طاقت اور اختیار کے ساتھ ذمے داری آتی ہے۔تو کیا ہماری سیاسی حکومتیں با اختیار ہیں؟(س)
from Hassan Nisar Official Urdu News Website https://ift.tt/2Fs6GQ7
via IFTTT
No comments:
Write komentar