(لیاقت تمنائی)
2015ء میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے یمن پر اس یقین کے ساتھ دھاوا بولا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کے اندر انصاراللہ کی تحریک کو کچل کر دوبارہ سے مفرور صدر منصور ہادی کی حکومت کو بحال کرکے بحرین طرز پر پہلے کی طرح مکمل کٹھ پتلی سعودی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا، کیونکہ سعودی عرب ہمیشہ مہروں کے ذریعے اپنا کھیل باآسانی کھیلتا آیا ہے۔ پھر وہ ہوا جو سعودی عرب کے جنگجو ولی عہد نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ اس جنگ کو تین سال سے زیادہ ہوچکے ہیں، لیکن یہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، ایک دلدل ہے جس میں سعودی عرب دھنستا ہی چلا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کو ہمیشہ سے ہی اپنے پٹرو ڈالر پر منحصر معیشت پر ناز رہا ہے، کیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ تیل کی پیداوار کا حامل ملک ہے اور یہیں پر ہی دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو موجود ہے۔ تیل کے بے تحاشا پیسوں سے دنیا بھر میں سعودی انتہا پسندانہ نظریات کا پرچار اور وہابیت کے فروغ کے ذریعے غیر روایتی نظریاتی وج کی تشکیل پر اربوں ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں۔
سعودی ولی عہد بھی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ مغرب کے کہنے پر افغان جنگ کے دوران دنیا بھر خصوصاً پاکستان اور افغانستان میں وہابیت کے فروغ کیلئے سعودی عرب نے سرمایہ کاری کی تھی۔ اسی سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے کہ پاکستان سمیت مشرق وسطیٰ اور بعض افریقی ممالک میں سعودی فنڈز سے چلنے والے مدارس اور مساجد کا وسیع نیٹ ورک وجود میں آچکا ہے۔ مختلف تنظیموں پر بھی پیسے خرچ کئے گئے، جبکہ کئی ممالک میں حکومتیں گرانا اور بنانا بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے۔ یمن جنگ اسی منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے شروع کی گئی تھی کہ انہیں دنیا بھر سے ہمدردی اور ریال کی بنیاد پر فوری طور پر فزیکل سپورٹ مل جائے گی۔ جنگ کے فوری بعد فوج بھجوانے کیلئے پاکستان پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا، لیکن پاکستانی پارلیمنٹ نے اسے ناکام بنا دیا، جس کے بعد سے سعودی عرب پاکستان سے ناراض ہے۔ گو کہ یمن جنگ میں پاک فوج باقاعدہ طور پر شریک نہیں، تاہم حال ہی میں عسکری حکام یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ پاکستانی فوج کی قابل ذکر تعداد کو سعووی عرب بھیجا جا چکا ہے۔ پاک فوج کے بقول یہ اہلکار سعودی فوجیوں کی ٹریننگ تک محدود ہونگے۔
پاک فوج کو یمن جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد پرائیویٹ سطح پر بھرتیوں کا عمل شروع ہوا۔ حال ہی میں خپلو سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بھرتی ہونے کیلئے گئے تھے، تاہم انہیں اس بنیاد پر واپس بھیج دیا گیا کہ ان کا تعلق ایک خاص مسلک سے نہیں ہے۔ بھرتی کرنیوالے حکام کا موقف تھا کہ سعودی فوج میں بھرتی ہونے کیلئے صرف خاص مسلک کے بندے چاہیں۔ نجی سطح پر فوج کی بھرتی کے ساتھ ساتھ نظریاتی سطح پر بھی خاص مہروں کو استعمال میں لایا گیا۔ یمن جنگ کی ابتداء سے ہی سعودی عرب کی کوشش رہی ہے کہ جنگ کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جائے اور سعودی عرب سالمیت کو کسی خاص مکتب سے خطرہ ظاہر کیا جائے اس مقصد کیلئے مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کو حوثیوں سے خطرے کا واویلا پورے شد و مد کے ساتھ کیا گیا۔ اس سازش میں کامیاب ہونے کی صورت میں سعودی عرب کو دنیا بھر سے ہمدری ملنا یقینی امر تھا، لیکن یہ سازش بری طرح ناکام ہوئی۔ شیعہ سنی دونوں نے اس سازش کو بھانپ لیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک ایک پتا سعودیوں کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، یمن جنگ اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔
13 جون کو سعودی اتحاد نے پوری طاقت سے الحدیدہ بندرگاہ پر حملہ کیا۔ دوسری مرتبہ یہ غلط فہمی کی گئی کہ سعودی عرب وحشیانہ بمباری کے ذریعے بندرگاہ کنٹرول حاصل کر لے گا، لیکن نتیجہ پہلے سے زیادہ بھیانک نکلا۔ خبروں کے مطابق سینکڑوں سعودی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ساڑھے تین سو بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کر دیا گیا ہے، سعودی اتحاد والی فوج میدان سے فرار ہونے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن وہ انصار اللہ کے جنگجوؤں کے نرغے میں میں ہیں۔ دوسری جانب الحدیدہ میں مار کھانے کے باؤجود سعودی میڈیا نے اپنے عوام کا دل بہلانے کیلئے الحدیدہ پر کنٹرول کا پروپیگنڈا شروع کیا۔ سعودی عرب میں چونکہ میڈیا بادشاہی کنٹرول میں ہے، اس لئے جھوٹی خبروں کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے، الحدیدہ کا معرکہ یمن کے عوام کیلئے فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ یہاں سے اگلا منظرنامہ وجود میں آسکتا ہے، جو کہ سعودی اتحاد کے حق میں بالکل بھی نہیں ہے۔
جنگ طویل ہونے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے اندر تک پھیل چکی ہے، اسٹریٹجک نقطہ نگاہ سے یہ ایک سنگین خطرہ ہے، عسکری مہم جوئی کی منصوبہ بندی میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ جنگ کا دائرہ کم سے کم ہو اور کم سے کم مدت میں اہداف کا حصول یقینی بنایا جائے۔ جنگ کا دورانیہ طویل ہونے سے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوگا، جو کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کیلئے بھی ناقابل برداشت امر ہے۔ دوسری جانب جنگ کا دائرہ بڑھنے سے فوج کی فزیکل پاور منتشر ہو جاتی ہے، ایک مضبوط قوت کا ایک ہی جگہ پر استعمال کرنے سے ہدف کا حصول آسان ہوتا ہے، لیکن اس کا دائرہ بڑھنے کی صورت میں قوت مدافعت کمزور پڑجاتی ہے۔ یمن کے میدان میں سعودی اتحاد کو ان دونوں صورتحال کا سامنا ہے۔ جنگ طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے، جبکہ اس کا دائرہ بھی پھیلتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال پٹرو ڈالر پر مبنی سعودی معیشت کی تباہی کے لئے کافی ہے۔
جنگ کا دائرہ پھیل جائے اور دورانیہ طویل ہوتا جائے تو جدید ترین ٹیکنالوجی بھی کسی کام کی نہیں رہتی۔ اس کی واضح مثال سویت یونین کی شکل میں ہم سب کے سامنے ہے۔ سویت یونین کی دیوہیکل طاقت کا شیرازہ بکھرنے کی وجوہات میں سب سے اہم فیکٹر معاشی بحران بتایا جاتا ہے، سویت کی اقتصادیات کو افغان جنگ کے طویل دورانیے نے نوچ ڈالا، یہی صورتحال یمن میں سعودی عرب کو درپیش ہے، دونوں میں حیران کن حد تک اشتراک پایا جاتا ہے۔ 1917ء میں بالشویک پارٹی کی بغاوت سے جنم لینے والا سویت یونین کارل مارکس کے معاشی اصولوں کی بنیاد پر قائم معاشی اور عسکری اعتبار سے مضبوط ترین ملک تھا، یہ الگ بحث ہے کہ کارل مارکس کے نظریات کس حد تک درست تھے، لیکن زار شاہی سے بالشویک کے قبضے میں آنے کے بعد سویت یونین جو پہلی جنگ عظیم کے بعد بدترین بحران کا شکار تھا، نے ترقی کے نئے ریکارڈ بنا دیئے، 1990ء تک سویت یونین سٹیل، بھاری مشینری، ٹریکٹر، سیمنٹ گیس اور بجلی سمیت 30 اہم ترین صنعتوں کی پیداوار میں دنیا میں سب سے آگے تھا، سائنسی میدان میں اس وقت بھی روس کے پاس پیشرفتہ ترین ٹیکنالوجی پائی جاتی ہے، عسکری اعتبار سے کئی شعبوں میں اس وقت بھی روس کو امریکہ پر واضح برتری حاصل ہے۔
دس سالہ افغان جنگ نے سویت یونین کی اقتصادیات کا جنازہ نکال دیا۔ کیونکہ جنگ کی غیر ضروری طوالت سے سویت یونین کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوا، جس کا اندازہ پہلے نہیں لگایا سکتا تھا، سویت یونین کو اپنی عسکری طاقت پر ناز تھا، لیکن جنگ کا صرف عسکری پہلو ہی نہیں ہوتا، حالت جنگ میں سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سماجی نظام بھی ریاست کے ساتھ براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ سویت یونین کیلئے افغانستان ایک ایسی دلدل بن گیا تھا، جس سے فوری چھٹکارا ممکن نہ رہا، جنگ طویل ہوتی گئی اور سویت یونین کا اقتصادی نظام تباہ ہوتا گیا۔ آخر میں گورباچوف کے استعفٰے کے فوری بعد راتوں رات ہی سویت یونین بکھر کر ٹکرے ٹکرے ہوگیا، یہ پوری دنیا کیلئے غیر متوقع تھا۔ سویت کے افغانستان اور سعودی عرب کے یمن میں قدے مماثلت پائی جاتی ہے۔ یمن پر ایک دو ہفتے میں مکمل قبضہ کرنے کے اندازے کے ساتھ حملہ کیا گیا تھا، اب تین سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے، لیکن جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، انصاراللہ کے جنگجوؤں کے ہاتھوں جس طرح سعودی اتحاد کا حشر دیکھنے میں آرہا ہے، وہ صرف سعودی عرب ہی نہیں پوری دنیا کیلئے غیر متوقع ہے۔
جس طرح سویت یونین کو افغانستان میں امریکہ اور اتحادیوں نے بری طرح پھنسا لیا تھا، اسی طرح سعودی اتحاد یمن میں بری طرح پھنس چکا ہے۔امریکہ، اسرائیل سمیت کئی یورپی ممالک کی بھی کوشش ہے کہ یمن جنگ طول پکڑے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ سعودی عرب کے پاس اس وقت بھی تیل کا پیسہ بہت ہے اور جنگ جاری رہنے کی صورت میں مغربی اسلحہ ساز کمپنیوں کو براہ راست فائدہ پہنچے گا۔ اندرون خانہ ایران کارڈ کھیل کر سعودی عرب کو جنگ جاری رکھنے اور ہر صورت جیتنے کی کا مشورہ دیا جاتا ہے، تاکہ امریکہ کی زنگ آلود اسلحہ فیکٹریوں میں نئی جان پیدا ہوسکے۔ یمن جنگ کے ٹھیک دو سال بعد ہی سعودی عرب میں معاشی بحران واضح ہونا شروع ہوا، ایک ایسا ملک جس کے پاس تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، یمن جنگ نے سعودی تاریخ میں پہلی مرتبہ شہریوں پر مختلف قسم کے ٹیکس عائد کرنے پر مجبور کر دیا۔ عام شہریوں کو جو سہولیات سرکاری طور پر میسر تھی، وہ ایک ایک کرکے ختم ہو رہی ہیں اور عوام پر نئے ٹیکسز عائد کئے جا رہے ہیں۔
2018ء کے آغاز پر پہلی دفعہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ویلیو ایڈیڈ ٹیکس (وی اے ٹی) متعارف کرا دیا گیا، جس کے تحت عام اشیا اور سہولتوں پر اب پانچ فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے ملک میں پیٹرول کی قیمتوں میں بھی 127 فیصد اضافہ کر دیا۔ واضح رہے کہ خلیجی ممالک میں بیرون ملک سے کام کے لئے آنے والوں کے لئے ایک بڑی ترغیب وہاں کے ٹیکس فری قوانین ہیں، لیکن یمن کی دلدل نے محصولات کے نئے طریقے اپنانے پر مجبور کر دیا، اس سے پہلے حجاج بیت اللہ الحرام پر 5 فیصد ٹیکس عائد کیا جا چکا ہے۔ جون 2018ء کے اوائل میں گلف نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی حکام نے یکم جولائی سے ملک بھر میں موجود تمام غیر ملکی باشندوں سے 100 ریال فی کس کے حساب سے لیوی ٹیکس وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں 2020ء تک ہر سال 100 ریال کا اضافہ ہوگا اور یہ بڑھتے بڑھتے 400 ریال ماہانہ تک جا پہنچے گا۔ معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے غیر مقامی افراد پر عائد کردہ لیوی ٹیکس غیر ملکی ملازمین اور تاجروں دونوں پر مالی بوجھ بنے گا، معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، تعمیراتی، غذائی اور اشیائے صرف مہنگی ہو جائیں گی۔
وہ کمپنیاں جہاں غیر ملکی ملازمین کی تعداد مقامی ملازمین سے زیادہ ہے، وہ ہر غیر ملکی ملازم کے عوض 200 ریال پہلے ہی ادا کر رہی ہیں، فیس کا اطلاق صرف غیر ملکی ملازم پر ہے، سعودی شہریت کے حامل ملازم پر نہیں، تاہم اب یکم جولائی سے لے کر 2020ء تک یہ ٹیکس بتدریج بڑھایا جا رہا ہے اور اضافہ ان کمپنیوں کے لئے بھی ہوگا، جہاں غیر ملکی کم اور مقامی زیادہ ہیں، وہاں بھی ٹیکس معاف نہیں ہوگا۔ معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق لیوی ٹیکس کی وجہ سے مہنگائی بڑھے گی اور لوگوں کو بھاری اخراجات، کچھ عرصے بعد لگنے والے ویلیو ایڈڈ ٹیکس، مہنگے فیول، اشیائے صرف اور مہنگی غذائی اشیا کا سامنا کرنا ہوگا، جس کی وجہ سے غیر ملکی ملازم کی مالی بچت ختم ہو جائے گی۔ گذشتہ سال سعودی عرب نے ایکسائز ٹیکس عائد کر دیا، جسے عرف عام میں گناہ ٹیکس کے نام سے جانا جاتا ہے، ایکسائز ٹیکس تمباکو سے بنی ہر قسم کی اشیا (سگریٹس بھی)، سافٹ ڈرنکس اور انرجی ڈرنکس پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جس کے بعد سے متعدد اشیا کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں۔ اب یکم جولائی سے غیر ملکیوں پر لیوی ٹیکس لگایا جا رہا ہے، جب کہ کچھ عرصے بعد ویلیو ایڈڈ ٹیکس (ویٹ) بھی نافذ کیا جائے گا، یہ محصولات عائد کرنے کا مقصد تیل کی کم ہونے والی قیمتوں کے سبب پیدا شدہ مالی بحران کو دور کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
یہاں یہ بات قابل غور رہے کہ 2015ء سے پہلے سعودی عرب میں شہریوں پر کسی بھی قسم کا کوئی ٹیکس عائد نہیں تھا، سعودی شہری طویل زندگی تک محصولات سے پاک اور متعدد معاملات پر سبسڈی حاصل کرنے کا لطف اٹھا چکے ہیں، تاہم اب یہ معاملہ ختم ہونے جا رہا ہے۔ سعودی عرب میں معاشی بحران کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار سعودی حکومت نے مالی معاملات میں قمری کلینڈر کے بجائے شمسی کلینڈر کو شامل کرنے کا اقدام بھی اٹھایا، سعودی کابینہ میں شامل وزراء کی تنخواہوں میں کٹوتی کی، سول سرونٹس کی تنخواہیں منجمد کیں، کیونکہ گذشتہ سال سعودی عرب کا بجٹ خسارہ ریکارڈ سطح پر 97 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ تین سال پہلے تک سعودی عرب نے پیٹرو ڈالر کی مدد سے اپنے شہریوں کے لئے ہر قسم کی سہولت مہیا کرر کھی تھی، لیکن یمن جنگ اور شامی میں دہشتگردوں کی مالی معاونت کیلئے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی خریداری نے سعودی عرب کے خزانے کو خالی کر دیا، اب بدتر اقتصادی صورتحال کا سامنا ہے۔
یمن کی جنگ پر صرف گذشتہ سال 30 ارب ڈالر کا خرچہ آیا بلکہ اس جنگ کے جاری رہنے اور اس کے ساتھ ہی ریاض کی جانب سے شام میں دہشت گردوں کی مالی اور عسکری معاونت کی وجہ سے نئے سال میں بھی سعودی عرب کو کئی ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر غیر ملکیوں کو اخراج کیا جائے گا اور دسیوں ہزار جوانوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ گذشتہ سال کی شروعات میں سعودی عرب کی سب سے بڑی کمپنی بن لادن نے 77 ہزار ملازمین اور مزدووں کو مالی بحران کی وجہ سے فارغ کر دیا جبکہ اس کمپنی میں دو لاکھ ملازمین بر سر روزگار تھے۔ اسی طرح یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ اس کمپنی میں کام کرنے والے 12 ہزار سعودی ملازمین بھی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ نوکری سے نکالے گئے ملازمین اور مزدوروں نے اپنی تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے پرتشدد مظاہرے بھی کئے اور کئی بسوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں، یہ جنگ دو تین سال اور جاری رہتی ہے تو عین ممکن ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک اور سویت کا انہدام ہو، کیونکہ بیک چینل ڈپلومیسی کا آپشن بھی تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ آگے سمندر پیچھے کھائی ہے، جنگ جاری رہنے کی صورت میں سعودی عسکری اور اقتصادی ڈھانچہ زمین بوس ہو جائے گا۔ جنگ بندی کی صورت میں حوثی فاتح ہونگے۔ یہ دونوں صورتیں سعودیہ کیلئے ناقابل قبول ہیں، دونوں صورتوں میں شکست یقینی ہے۔ تیسرا آپشن سعودیہ کے سامنے فی الحال کوئی نہیں بچا۔
The post کیا سعودی عرب ٹوٹ رہا ہے؟ appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.
from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2KCs48A
via IFTTT
No comments:
Write komentar