(ظہیر اختر بیدری)
رات کے دو بج رہے ہیں، ہماری نیند کی پہلی شفٹ ختم ہوگئی ہے، دوسری شفٹ شروع ہونے سے قبل میں یا تو کوئی کتاب پڑھتا ہوں یا ٹی وی کھول دیتا ہوں، آج جب میں نے ٹی وی کھولا تو ڈسکوری چل رہی تھی، جانوروں کے ریوڑ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے، ان میں ایسے بھینسے بھی تھے جو شیر کو سینگوں سے اس طرح اچھال دیتے ہیں کہ شیر دور جاگرتا ہے لیکن درندہ درندہ ہوتا ہے وہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے، اتنے میں دو شیر اور آجاتے ہیں اور جانوروں کے ریوڑ پر حملہ کردیتے ہیں۔ ایسا سوچا جاتا ہے کہ جانوروں اور درندوں میں عقل اور سوجھ بوجھ نہیں ہوتی، لیکن جنگل کے درندوں کو آپ شکار پر حملہ کرتے دیکھیں گے تو آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جنگل کے درندوں میں بھی عقل ہوتی ہے، سمجھ بوجھ ہوتی ہے، شیر جب شکار پر جھپٹتا ہے تو سب سے پہلے وہ شکار کی گردن کو اپنے دانتوں میں دبا لیتا ہے تاکہ اس کا دم جلد نکل جائے۔ میں نے یہ منظر ایک دو بار نہیں ہزار بار دیکھا ہے، شیر ہمیشہ جانور کی گردن پر اپنے دانت گاڑ دیتا ہے، کیا ایسا حملہ عقل کے بغیر کیا جاتا ہے؟ یہ سوال بار بار میرے ذہن میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے، جنگل میں درندوں کی کمزور جانوروں کے خلاف ہار جیت عام بات ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں 70 سال سے خون بہہ رہا ہے، فلسطین میں بھی فلسطینیوں کا خون بہاتے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے، اس دوران بھارت میں درجنوں حکومتیں بدلیں، درجنوں حکمران آئے، لیکن کشمیریوں کا خون بہنا بند نہ ہوا، یہی حال بلکہ اس سے بدتر حال فلسطین کا ہے، کشمیر میں 70 ہزار کشمیریوں کو قتل کردیا گیا، فلسطین میں اس سے زیادہ فلسطینی مارے گئے۔ بھارت کا موقف یہ ہے کہ کشمیر سے اس کے جنگی مفادات وابستہ ہیں، کشمیر کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں اور چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ ہے، بھارت خطے کی منی سپر پاور بننا چاہتا ہے اور بھارتی فوجی ماہرین کے مطابق بھارت کا کشمیر پر قبضہ ضروری ہے۔ فلسطین کی جنگ بھی کشمیر جتنی ہی پرانی ہے، ان دونوں ملکوں میں اب تک لاکھوں انسان مارے گئے ہیں اور مارے جا رہے ہیں۔ کشمیر میں خون خرابے کی وجہ یہ ہے کہ کشمیر میں مسلمان رہتے ہیں، یہاں ان کی اکثریت ہے، انھیں دبائے رکھنا ضروری ہے اور انھیں دبائے رکھنے کے لیے بھارت نے کشمیر میں 8 لاکھ فوج لگا رکھی ہے جو کشمیریوں کو قتل کر رہی ہے۔
کشمیری مسلمان ہیں اور اسی جرم میں وہ 70 سال سے قتل کیے جا رہے ہیں۔ بھارت کے حکمران یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کشمیری مسلمان، مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ انسان بھی ہیں، اس شناخت پر بھارتی حکمران سوچنے کے اہل نہیں ہیں۔کشمیر کا مسئلہ 70 سال سے متنازعہ ہے، اس دوران دونوں ملکوں کے سفارت کار دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہے، تاکہ کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کی راہ ہموار ہوسکے، لیکن یہ سفارت کار جن میں اعلیٰ پائے کے سفارت کار بھی شامل رہے ہیں اس لیے 70 سال سے یہ مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ بھارتی اور ہندو بن کر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے رہے، انسان بن کر اگر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو کب کا یہ مسئلہ حل ہوجاتا، 70 ہزار کشمیری قتل ہونے سے بچ جاتے۔بھارت میں سیکڑوں دانشور ہیں، سیکڑوں مفکر ہیں، سیکڑوں عالم ہیں، سیکڑوں ادیب ہیں، سیکڑوں شاعر ہیں، سیکڑوں فنکار ہیں جو ہندو ہیں نہ مسلمان، کشمیری ہیں نہ بھارتی، وہ انسان ہیں صرف انسان۔ لیکن یہ مرچکے ہیں، انسانیت کے شمشان میں ان کی چتائیں جلائی جاچکی ہیں۔
اب وہ کشمیر کے حوالے سے کوئی اہم رول ادا نہیں کرسکتے، کیونکہ ان کی گردنوں میں ’’قومی مفاد‘‘ کا پٹہ ڈال دیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں بنائے ہوئے یہ خوبصورت پٹے دنیا کے تمام حکمرانوں کی گردنوں میں ڈال دیے گئے ہیں اور جب تک یہ پٹے ان کی گردنوں میں موجود ہیں نہ وہ انسان بن سکتے ہیں نہ متنازعہ مسائل حل کرسکتے ہیں۔لیکن پٹے والوں کی بھیڑ میں ایسے دانشور بھی ہیں، ایسے مفکر بھی ہیں، ایسے عالم بھی ہیں، جو نہ ہندو ہیں نہ سکھ، نہ عیسائی ہیں نہ یہودی، نہ پارسی نہ بدھ، بلکہ وہ انسان ہیں۔ 70 سال سے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے نامور سفارت کار اپنی تمام تر سفارتی مہارت لگا رہے ہیں، لیکن کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا ہے کیونکہ یہ سفارت کار قومی مفادات کا پٹہ گلے میں ڈال کر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جب ان سفارت کاروں ان حکمرانوں کی جگہ انسان لیں گے اور انسان کی حیثیت سے یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گلوں میں قومی مفادات کا پٹہ ڈالے رکھنے والے حکمران کیا انسانوں کو یہ مسئلہ حل کرنے کا موقع دیں گے؟
کشمیر میں ہندو اور مسلمان ہندوستانی اور پاکستانی کشمیر کا مسئلہ حل نہ کرسکے، فلسطین کا مسئلہ بھی لگ بھگ کشمیر جتنا ہی پرانا ہے، فلسطین کا مسئلہ بھی اس لیے حل نہیں ہو رہا ہے کہ اسرائیلی حکمرانوں کے گلے میں بھی قومی مفاد کا پٹہ ڈال کر رکھا گیا ہے، فلسطین میں فلسطینی اور اسرائیلی ہیں، امریکا اور اس کے اتحادیوں کا مفاد اسی میں ہے کہ اسرائیل ہر صورت میں نہ صرف باقی رہے بلکہ علاقے کا دادا بنا رہے۔ فلسطین کے مسئلے کو بھی 70 سال سے حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن ان کوشش کرنے والوں کے گلے میں بھی قومی مفاد کے پٹے ڈالے ہوئے ہیں، فلسطینی اور اسرائیلی فلسطین کے مسئلے کو کبھی حل نہیں کرسکتے، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھی ’’انسانوں‘‘ کو آگے آنا پڑے گا۔
دنیا کا ہر ملک خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، خواہ وہ طاقتور ہو یا کمزور، قومی مفادات کی زنجیر میں بندھا ہوا ہے اور انسانوں کے درمیان نفرتوں تعصبات اور جنگوں کا سلسلہ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا جب تک حکمرانوں کے گلے میں قومی مفادات کا پٹہ موجود ہو۔ اقوام متحدہ دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے، لیکن اقوام متحدہ دنیا کے مسائل حل اس لیے نہیں کر سکتی کہ اس ادارے میں بھی ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، امریکی، روسی، چینی، برٹش، جرمن، بھارتی اور پاکستانی موجود ہیں، اگر اقوام متحدہ میں انسان آجائیں گے تو دنیا کے مسائل حل کرنے کی راہ نکل آئے گی۔بشکریہ ایکسپریس نیوز
The post کشمیر و فلسطین کا مسئلہ اور انسان appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.
from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2KzTnQY
via IFTTT
No comments:
Write komentar