(پروفیسر مقصود جعفری)
روحانیت صرف اور صرف بندگی خدا اور خدمت خلق کا نام ہے۔ملوکیت سیاسی استحصال،ملائیت مذہبی استحصال اور خانقاہیت روحانی استحصال ہے۔ جاگیرداری اور سرمایہ داری انسانوں کا معاشی استحصال ہے۔سادہ دل بندوں کے لئے درویشی عیاری ہے۔ سلطانی مکاری ہے مگر یہ افیون خوردہ خواب غفلت کا شکار ہیں۔ تکیہ برتقدیر ، بے نیاز تدبیر، جہالت کے اسیر دوش زندگی پربار اور شاخ گل پر خار ہیں۔ مسلمانوں کی عمومی حالت زار اور پاکستانیوں کی زندگی بے بہار و پرخار دیکھ کر آتش کا شعر ورد زبان ہے :
نہ بدرقہ ہے نہ کوئی سوار راہ میں ہے
فقط عنایت پروردگار راہ میں ہے
پاکستان خدا کے سہارے چل رہا ہے نہ یہ اسلامی ہے نہ یہ جمہوری ہے اور نہ ہی فلاحی۔ دنیا میں زبان ، قبیلہ، فرقہ، ثقافت اور مذہب کے نام پر سادہ لوح انسانوں کا استحصال ابتدائے آفرینش سے ہو رہا ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہ اپنے آپ کو خادمین حرمین کہلواتے ہیں۔ملوکیت و خلافت کا فرق و امتےاز مٹا دیا گیا ہے۔ عصر حاضر میں خلافت و ملوکیت میں تمیز علامہ اقبال کے اشعار و افکار نے سمجھائی یا مولانا مودودی کی ”خلافت وملوکیت“نے پردہ شاہی چاک کیا۔پاکستان میں اسلام کے نام پر جنرل ضیاءالحق نے حکومت کی۔ ریفرنڈم کروایا۔ پاکستان میں اسلامی نظام کے حق میں رائے طلب کی گئی۔کون کلمہ گو اسلامی نظام کے نفاد میں ووٹ نہ دیتا۔ ریفرنڈم اسلام کے نام پر کرایا گیا اور نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ عوام کی اکثریت نے اسلام کے نفاذ کے لئے جنرل ضیاءالحق کا انتخاب کیا ۔ بریں عقل و دانش بباید گریست۔ پاکستان ٹی وی کے ایک سابق ایم ڈی اختر وقار عظیم نے کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے ”ہم بھی وہیں موجود تھے“وہ لکھتے ہیں کہ صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق نے اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں خطاب کیا جسے براہ راست پاکستان ٹی وی پر دکھایا گیا۔ اقوام متحدہ کے ہال سے منسلک ایک اسٹوڈیو سے اظہر لودھی نے اعلان کیا۔ قاری خوشی محمد نے تلاوت کی اور پاکستانی عوام کو دانستہ یہ تاثر دیا گیا کہ جنرل ضیاءالحق نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں تاریخ میں پہلے بار تلاوت قرآن مجید کروا دی۔ سبحان اللہ ۔اسلام کے نام پر پہلے پاکستانیوں کو کوڑے مارے گئے اور اب جعل سازی اور دھوکہ بازی کی گئی۔ علامہ اقبال کہتے ہیں”رمز قرآن ہم نے حسین سے سیکھی“۔
اسلام نظام آزادی و مساوات ہے۔ امام حسین ؑ نے دسویں محرم کو فوج یزید سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہارے سروں پر جبر کی تلوار دیکھ رہا ہوں۔ تمہارے منہ سے روٹی کے نوالے تک چھین لےے گئے تھے۔بیت المال کو حواریوں میں تقسیم کیا جارہا ہے اگر تم اسلام سے کنارہ کش ہوگئے تو انسانی حقوق کی جنگ میں میرا ساتھ دو۔گویا امام حسینؑ ملوکیت اور آمریت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑرہے تھے۔ سرمایہ داری کے خلاف غریب©وں کے لئے روٹی کی بات کر رہے تھے اور انسانی حقوق کا پرچم بلند کر رہے تھے جبکہ یزید استعمار و اشکبار و استبداد کا نمائندہ تھا۔ امریکہ اور یورپ جمہوریت اور آزادی کے علم بردار ہیں روس اور چین ”روٹی“کا وعدہ کرتے ہیں۔ اسلام میں جمہوریت و آزادی بھی ہے اور روٹی ،کپڑے، مکان کا بھی بندوبست ہے اور یہی مفہوم حسینیت ہے۔ حسینیت اور یزیدیت دو استعارے ہیں۔ حسینیت توحید، آزادی، انصاف اور مساوات کا استعارہ ہے جبکہ یزیدیت الحاد، فسق و فجور، ملوکیت، آمریت، ظلم اور سماجی و معاشی استحصال کا استعارہ ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاءسے یہ قول منسوب ہے ، وہ فرمایا کرتے تھے کہ ارکان دین میں ”روٹی“کو بھی شامل کرلو۔کارل مارکس نے اشتراکیت کا درس دیا۔ روٹی کی بنیاد پر اپنے قصر فکر کی بنیاد رکھی۔ روس اور چین جیسی دو بڑی مملکتیں نظریہ اشتراکیت کی بدولت انقلاب سرخ لائیں۔ اسلامی ممالک میں نہ ”روٹی“ہے اور نہ ”جمہوریت“مجھے لاہور میں داتا گنج بخش کے مزار پر حاضری دینے کی سعادت نصیت ہوئی۔ فقراءکا ایک ہجوم دیکھا جو چاول کی دیگوں پر ٹوٹ پڑا۔ اسلام آباد میں حضرت عبدالطیف امام بری کے مزار پر حاضری دی، نذر نیاز دی، چاول کی دیگوں پر غرباءکی کثیر تعداد ٹوٹ پڑی۔ زاہد ان خشک مولوی حضرات کی محفل میں مسلکی اور فروعی تنازعات سے غریبوں کا پیٹ نہیں بھرتا جبکہ اولیاءاللہ کے مزاروں اور درگاہوں پر دال روٹی میسر ہوتی ہے۔روحانیت بھی روٹی کے بغیر ادھوری ہے۔
اے کاش مسلمان ریاستوں میں سماجی انصاف ہوتا تو غرباءکو روٹی کے لئے درباروں اور مزاروں پر نہ جانا پڑتا۔ یہ زیارت گائیں روحانی خوراک کےلئے ہیں نہ کہ چاولوں کے لئے افلاطون نے اپنی خیالی ”جمہوریہ“میں شاعر اور خطیب کا داخلہ بند کردیا تھا۔ اس کے خیال میں شاعر اور شعلہ بیان مقرر دلیل و استدلال اور عقل و ادراک کے بجائے جذبات سے کام لے کر عوام کو جذباتیت کی طرف مائل کرتے ہیں۔ افلاطون چونکہ فلسفی تھا اور فلسفی استدلال کی وادی کا باسی ہوتا ہے اس لئے وہ جذبات کی بجائے معقولات کو ترجیح دیتا ہے ارسطو نے تو وجدان و اعیان کی سراسر مخالفت کی اور صرف عقل کو پیمانہ عظمت انسان قرار دیا۔ فرانس کا فلسفی برگساں وجدان کو عقل اعلیٰ قرار دیتا ہے جسے عقل سلیم بھی کہا جا سکتا ہے علامہ اقبال کی نظر میں وحی کا مقام بلند ترین ہے کیونکہ یہ قول خدا ہے جو عقل و وجدان و الہام سے بالا و برتر ہے۔ بنوتمیم کا ایک وفد قبول اسلام کے لئے پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوا توقبیلے کے چند خطباءنے اپنے قبیلے کی روایات ، خصوصیات ، رسومات اور خدمات کا ذکر کرکے اپنے قبیلے کی عظمت بیان کی ان کی تقاریر اس قدر پر اثر تھیں کہ رحمت دو عالم نے ارشاد فرمایا”بے شک بعض اشعار میں حکمت ہوتی ہے اور بیان کی بعض صورتوں میں جادو ہوتا ہے“یعنی شاعری اور خطابت دلوں کو گرما دیتی ہے انسانی معاشرہ ایک ایسے گلشن کی مانند ہے جس میں رنگ رنگ کے پھول ہیں اور بقول شاعر ”ہر گلے را رنگ و بوئے دیگراست“ اس طرح ہر معاشرے میں سائنس دان، فلسفی، ادیب، شاعر اور خطیب ہوتے ہیں۔ انہیں کے دم قدم سے زندگی خوشگوار اور جادہ زیست ہموار رہتا ہے۔ فعنی کے نغمات سے سوز و ساز آباد ہے۔ موسیقی روح کی غذا، اور بقول افلاطون تالیف قلب کا سامان ہے جو زاہدان خشک زعم پارسائی میں مبتلا شاعری، مصوری اور موسیقی کے خلاف سینہ سپر ہے وہ دراصل سینہ ثقافت پر ضرب تےرسہ شعبہ ہیں۔ ادیب و ثقافت کو عام کرو۔زندہ رہنے کا اہتمام کرو۔انتہا پسندی کا واحد علاج ادب دوستی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں ہر کاونٹی اور محلہ میں پبلک لائبریریاں ہیں جہاں فرصت و فراغت میں کیا نوجوان اور کیا بوڑھے مصروف مطالعہ نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں نیشنل سنٹر تھے۔ لائیریریاں تھیں یہ ادارے بند کرکے در دہشت گردی کھول دیا گیا۔
The post خداوندا ترے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.
from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2z2NhHQ
via IFTTT
No comments:
Write komentar