(محمد دین)
آج 27 up شالیمار ایکسپریس کراچی سے لاہور جاتے ہوئے محراب پور سے چند کلو میٹر آگے ایک بڑے حادثہ سے بال بال بچی.’’الحمدوللّہ‘‘ ٹرین تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھی کہ اکانومی کلاس کی ایک بوگی کے پہیے ہی ٹرین سے تقریبآَ الگ ہو گئے. ٹرین ڈرائیور نے بروقت بریک لگا کر ٹرین کو روک لیا. سخت گرمی میں دو بڑے سٹیشنوں کے درمیان ٹرین ایسی جگہ کھڑی تھی کہ جہاں کسی آبادی کا نام و نشان نہ تھا. مسافر سخت پریشان. بچوں کے رونے دھونے کی آوزیں. خواتین گرمی میں بے حال اور اس پر مزید یہ کہ بقول ٹرین سٹاف, امدادی کاروائیوں میں چھ گھنٹے لگ سکتے ہیں.
اس بے آباد جگہ پر عجب بے بسی کا احساس اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کریں. اچانک ایک ایسا منظر دیکھا کہ جسے الفاظ میں بیان کرنے کا میں اپنے اندر حوصلہ نہیں پاتا. وہ منظر دیکھ کر بے اختیار , زار و قطار میری آنکھوں سے اشک رواں تھے. درختوں کے بیچ کھیتوں کے درمیان نہ جانے کدھر سے قریبی دیہات کے باسی قطار اندر قطار آنا شروع ہو گئے.
عجیب منظر تھا!
کسی نے پانی کا کولر اٹھایا ہوا ہے اور کسی نے گھڑا. کوئ جگ اٹھاے ہوے ہے اور کوئ دودھ کا برتن. اپنی پگڑی میں کوئ بزرگ برف کا تحفہ لا رہا ہے اور کچھ نوجوان بوریاں بھر کر برف لا رہے ہیں. ہر ایک کی خواہش ہے کہ مسافر اسے خدمت کا موقع دیں. چند منٹوں میں چنے چاول پلاؤ کی بھری ہوئ دیگ ایک رکشہ پر لائ گئ. غریب لوگوں کے پاس قیمتی برتن تھے تو نہیں تھے البتہ چاول کھلانے کے لیے مٹی کی بنی ہوئ پلیٹیں اٹھائے ہوے تھے. آتے ہی سب نے کھانے پینے کی چیزیں بانٹنا شروع کر دیں. ایک عمر رسیدہ شخص کپڑے میں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لائے تھے. گاؤں کے نوجوانوں کا کردار مثالی تھا. گرمی کی شدت سے بے نیاز تمتاتے چہروں کے ساتھ ایک جنونی انداز میں امدادی کام میں شریک تھے. نہ مدد کرنے والے جانتے تھے کہ وہ جس کی مدد کر رہے ہیں وہ کس صوبے, کس ذات برادری, کس مزہب سے تعلق رکھتا ہے اور نہ پریشان حال مسافر جانتے تھے کہ ان کی مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ ’’بس ایک ہی رشتہ تھا, انسانیت کا, پاکستانیت کا اور احسان کا‘‘
اسی دوران اطلاع ملنے پر پولیس کے مقامی افسر اللّہ رکھیو رند بھی اپنی پولیس پارٹی کے ہمراہ پہنچ گئے اور اپنے فرائض سنبھال لیے. میں نے گاؤں کے ان نیک سیرت امدادی کارکنوں سے انفرادی طور پر مل کر ان کا شکریہ ادا کیا اور دل کی گہرائیوں سے انہیں دعائیں دیں. وہ انسانی ہمدردی کے جزبے سے سرشار سادہ دل لوگ بے حد خوش نظر آ رہے تھے کہ انہیں خدمت کا موقع ملا. اسی دوران ریلوے کی امدادی کاروائیاں مکمل ہوئیں تو ٹرین کو واپس محراب پور لانے کا فیصلہ ہوا. ٹرین کی روانگی کے وقت ان دیہاتوں کے امدادی کارکن اس طرح ہاتھ ہلا کر الوداع کہہ رہے تھے جیسے اپنے کسی بہت خاص عزیز کو رخصت کیا جاتا ہے. ہماری آنکھوں میں بھی تشکر کے آنسو تھے.
چند گھنٹوں کی یہ رفاقت بہت سے سبق دے گئ کہ ہمارے پاکستان کے عوام کتنے اچھے ہیں, ہمدرد, دکھ درد بانٹنے والے, مصیبت میں کام آنے والے, اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کی مدد کرنے والے اور فرض شناس. اس جزبے اور ایثار کو میں کوئی نام دینے اور الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر ہوں. مٹی کا گھڑا اٹھائے وہ سادہ سا دیہاتی شخص اور مٹی کی پلیٹوں میں کھلایا جانے والا پلاؤ انمول تھا. اللّہ تعالیٰ ان سب کو جزائےعظیم دے, ان کے رزق میں وسعت وبرکت عطا فرمائے اور ان کو دنیا و آخرت کی بھلائ عطا فرمائے. آمین
The post اندرون سندھ محراب پور کے قریب گوٹھ "نوّں پوترا” کے مکینوں کا یادگار کردار appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.
from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2NbPeEL
via IFTTT
No comments:
Write komentar