لاہور(ویب ڈیسک )سروسز ہسپتال سنیل قتل کیس، جھگڑا موبائل فوٹیج بنانے سے ہوا، صلح کے 5منٹ بعد لڑائی مزید طول پکڑ گئی، ڈاکٹر نے تھپڑ مریضہ کرن کو نہیں اس کی بہن مہوش کو مارا، سنیل کی موت ایک گھنٹہ مسلسل کھڑا رکھنے سے زیادہ خون بہہ جانے کے باعث
ایس ایچ او شادمان کی موجودگی میں ڈپٹی ایم ایس گائنی کے کمرہ میں ہوئی۔ درد کی صورت میں سنیل نے ایمرجنسی میں جانے کی اجازت مانگی تو دھمکیاں اور ڈرامے بازی قرار دیا گیا۔ تھپڑ مارے گئے ، ایف آئی آر میں ڈاکٹرز کے نام ایک مقامی صحافی کی مدد سے لکھے گئے ۔تفصیلات کے مطابق کرن کاشف نامی مریضہ اپنے ڈلیوری کیس کیلئے 25مارچ کو سروسز ہسپتال آئیں تو انہیں26مارچ کی شام کو داخل کرنے کیلئے گائنی لیبر روم میں بلایا گیا شام سات بجے کے بعد کرن کاشف اپنی چھوٹی بہن مہوش کے ساتھ لیبر روم پہنچی تو ایک گھنٹے بعد اس نے ڈاکٹرز ونرسز سے ناروا رویہ کی شکایت کی۔ کرن کاشف کے مطابق اس کے ساتھ بیہودہ گفتگو کئی گئی تو کہا ہر کوئی ان پڑھ اور جاہل نہیں ہوتا آپ تمیز سے بات کریں جس پرڈاکٹر سائرہ نے پیٹ پر فائل ماری تو دور کھڑی چھوٹی بہن مہوش نے قریب آکر حمایت میں بات کی تو مہوش کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر کہا گیا کہ ہماری ویڈیو بنا رہی ہو موبائل ہمیں دو اسی دوران مہوش سے موبائل چھیننے کے لئے اسے پے درپے تھپڑ رسید کرد ئیے گئے جس پر مہوش نے باہر بھائی کو اطلاع دی
اس نے بہن پر تشدد کی بات سنی تو لیبر روم میں آنے کی کوشش کی تو سکیورٹی گارڈ کے روکنے پر ہاتھا پائی شروع ہوگئی ،سینئر لیڈی ڈاکٹر نے دونوں کی صلح کروا کر معاملہ رفع دفعہ کروا دیا۔اس کے پانچ منٹ بعد کرن کاشف کا بھائی اسے کھانا دینے گیا تو پھر گارڈ کی جانب سے بدتمیزی پر جھگڑا شروع ہوگیا جو طول پکڑ گیا اور لیبر روم کے اندر بھی خواتین کی لڑائی شروع ہوگئی یہ ہاتھا پائی اور مارکٹائی ایک گھنٹہ سے زائد عرصہ تک جاری رہی ،لیبر روم سے مہوش نے 15پر کال کردی اور پولیس حسب روایت لیٹ پہنچی، پولیس اہلکار اور ایس ایچ او نے موقع پر پہنچ کر سنیل سمیت کرن کے بھائی اور کزنز کو حراست میں لیکر ڈی ایم ایس کے کمرے میں بند کردیا جہاں پر سنیل کے بھائی کو کرسی پر بیٹھنے کی وجہ سے پولیس نے تھپڑ رسید کئے اور اسے کھڑا کردیا گیا۔ اسی دوران سنیل کے بھائی نے کہا کہ میرے بھائی کو سینے پر شدید درد ہورہا ہے دل گھبرا رہا ہے اسے باہر جانے دیں جس پر انہیں دھمکیاں اور گالیاں دی گئیں ۔ ایس ایچ او نے ملزمان کو تھانے لیجانے کی کوشش
کی تو ایس ایچ او کو روک دیا گیا اور ڈی ایم ایس کے کمرے میں ہی ایف آئی آر درج کرکے دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کا کہا گیا۔ جب سنیل نے پاس پڑی کوڑے کی ٹوکری میں قے کرنا شروع کردی تو کہا گیا سنیل ڈرامے کررہا ہے اسی دوران وہ کوڑے کی ٹوکری پر جاگرا اس کی فوری نبض چیک کرکے دروازہ کھولا گیا اور گائنی ایمرجنسی کے فرش پر لٹا کر سنیل کا سانس بحال کرنے کے لیے سی پی آر کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکا اور ڈی ایم ایس کے کمرے کو تالے لگاکر سنیل کو ایمرجنسی بھیج دیا گیا جہاں اسے مرنے کے باوجود کئی گھنٹے آئی سی یو میں رکھا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سنیل کی بائیں جانب سے چھ پسلیاں ٹوٹیں اور پھیپھڑوں میں لگیں ،شریانیں کٹنے سے اندرونی خون بہنا شروع ہوگیا سنیل کو ایمرجنسی میں لیجانے کے بجائے پسلیاں ٹوٹنے کے باعث ایک گھنٹہ کھڑا کر کے دھمکا یا گیاجس کے باعث اس کی موت واقع ہوئی۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا موقف ہے سنیل کی موت ڈپریشن کے باعث ہارٹ اٹیک سے ہوئی جبکہ بعد ازاں سی پی آر کے دوران اس کی پسلیاں ٹوٹیں جو معمول ہے مگر پوسٹ مارٹم میں ہارٹ اٹیک کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ سنیل کے بھائی انیل اور والد سلیم کا کہنا ہے کہ ڈی ایم ایس کے کمرے میں لیجانے سے قبل اس کی پسلیاں ٹوٹ چکی تھیں،موجودہ صورتحال اور انکوائری کے مطابق پولیس بھی قصور وار دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ان کی نگرانی میں اسے ایمرجنسی لیجانے سے روکا گیا۔ لیک کی جانے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں کہیں بھی ڈاکٹر تشدد کرتے نظر نہیں آرہے مگر لواحقین کا الزام ہے کہ ڈاکٹر ملوث تھے اب پروفیسر عیس محمد کی سربراہی میں دو روز کے دوران انکوائری مکمل ہونے پر ہی فیصلہ ہوگا کہ سنیل کے قتل میں ینگ ڈاکٹرز ملوث ہیں یا گارڈز اکیلے ہی ذمہ دار ہیں۔(ذ،ک)
from Hassan Nisar Official Urdu News Website https://ift.tt/2Ik8P2h
via IFTTT
No comments:
Write komentar