(محمد صادق حسینی)
(بیروت 1982 اور حدیدہ 2108 )
شاید حالات پہ نظر رکھنے والے انسان کے لئے یہ بات تعجب کا سبب بنے، کہ 1982 کے بیروت (لبنان کا دار الخلافہ) اور 2018 کے حدیدہ شہر میں گہری مماثلت اور مشابہت پائی جاتی ہے، اور ان دونوں شہروں میں ہونے والے واقعات اور بہادری کی داستانوں میں گہرا ربط پایا جاتا ہے۔ 1982 میں بیروت شہر پہ اسرائیلی جارحیت کے درمیان جس کو امریکہ کی اجازت اور مکمل تعاون حاصل تھا، اور اس وقت امریکہ کے مشترکہ فوج کا سربراہ جنرل ویلیم ھیگ تھا، اور حدیدہ شہر پر حالیہ جارحیت جس میں سعودی عرب کے زیر سایہ بننے والی عرب اتحادی افواج شریک ہیں جن کو براہ راست امریکی فرنسی اور اسرائیلی مدد حاصل ہے، ان دونوں جارحیتوں میں گہرا ربط پایا جاتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ بیروت پر حملے اور جارحیت میں صرف امریکی اجازت اور مکمل تعاون حاصل تھا، جبکہ حدیدہ شہر پر حالیہ جارحیت میں شر کی تمام قوتیں اکٹھی ہوئی ہیں۔اس مشابہت، مماثلت اور ربط کو سمجھنے کے لئے، جو کچھ اس وقت خوخاء کی بندرگاہ سے لیکر حدیدہ کی بندرگاہ تک ہو رہا ہے، اس حوالے سے مندرجہ ذیل باتوں پر توجہ دینے کی ضروت ہے .
1- جن لوگوں نے لبنان پر جارحیت کی منصوبہ بندی کی تھی تاکہ وہ اس جارحیت کے نتیجے میں لبنان کے دار الخلافہ بیروت پہ قابض ہو جائیں، وہ امریکہ اور اسرائیل کے عسکری ماہرین تھے، ان میں امریکی مشترکہ افواج کے سربراہ جنرل ایڈورڈ مایئر تھا، جس نے 1979سے لیکر 1983 تک امریکی افواج کی قیادت سنبھالی، اور غاصب اسرائیلی فوج کا سرابراہ رفائیل آیتان تھی جس کی قیادت کی مدت 1978سے 1983 تک تھی، بعینہ انہی افواج کے عسکری ماہرین اور جنرلز ہیں جس نے حدیدہ شہر پر حالیہ جارحیت کی منصوبہ بندی کی ہے۔ یعنی امریکی مشترکہ افواج کا جنرل جوزف ڈانفورڈ اور غاصب اسرائیلی فوج کا سربراہ غابی ایزینکوٹ کے ہاتھوں یہ منصوبہ بندی کی گئی۔
1982 میں لبنان پر جارحیت کا آغاز اس انداز سے ہوا، سب سے پہلے کافی مقدار میں ٹینکوں اور جدید ترین اسلحے سے لیس ہو کر بری دستوں کو بیروت کی جانب روانہ کیا گیا، تاکہ وہ تیزی کے ساتھ بیروت پہ قابض ہو سکیں، اور ساتھ ہی انتہائی شدت کے ساتھ بری، بحری اور فضائی بمباری بھی شروع ہوئی، اور ساتھ ہی خلدہ شہر کے ساحل پر بحری بیڑوں کے ذریعے سے فوجی دستوں کو بھی اتارا گیا، جوکہ بیروت کے جنوب میں واقع ہےلبنان کی طرف سے جن قوتوں نے اس جارحیت کا دفاع کیا وہ لبنان اور فلسطین کی مشترکہ عسکری قوتیں تھیں جن کو شامی فوج کا تعاون حاصل تھا جس کا فوجی دستہ 78وہاں خلدہ شہر کی پہاڑی چوٹی پر تعینات تھا، لبنان کے ان دفاعی قوتوں نے جارح افواج کے فوجی دستوں کو خلدہ شہر کے اندر آنے دیا اور کوئی مزاحمت نہیں کی، لبنانی مزاحمتی قوتوں نے ان جارح امریکی اور اسرائیلی فوجی دستوں کو خلدہ شہر کے مرکزی مثلث تک بغیر کسی مزاحمت کے اندر آنے دیا اور وہاں گھات لگا کر ٹینک شکن اسلحے سے استقبال کیا۔
9 جون 1982 تین کلومیٹر کے فاصلےپر مشتمل خلدہ کے مرکزی چوراہے پر ان قوتوں نے شجاعت وبہادری، استقامت وثابت قدمی اور مزاحمت کی وہ مثال پیش کی جس کو دشمن آج تک نہیں بھلا پایا۔اس مثالی مزاحمت کا عملی نتیجہ اسرائیلی فوج کا ٹینکوں پر مشتمل مکمل فوجی دستہ واصل جہنم ہوا، اور ساتھ ہی بحری بیڑے کے ذریعے سے فوجی دستوں کو اتارنے کا عمل بری طرح ناکام ہوا، اور اسرائیل کے بحری فوج کے کئی افراد قتل اور زخمی ہوئے، اس کے نتیجے میں جن محاذوں پر اسرائیلی فوج قابض ہو چکی تھی وہاں اپنا قبضہ برقرار نہ رکھ سکی۔ اور 88 دن تک لبنانی مزاحمتی قوتوں نے دنیا کی سب سے طاقتور اور جدید ترین اسلحے سے لیس فوج کے سامنے مزاحمت کی عجیب داستان رقم کی۔
2 ۔ اس جارحیت کی بری طرح ناکامی کے بعد اسرائیلی فوج نے بیروت کے مشرق کی جانب سے ان مزاحمتی قوتوں کو حصار میں لینے کے لئے ایک نیا محاذ کھول دیا، اس کارروائی کا مطلب بعبدا شہر اور بیروت کے بعض مشرقی علاقوں تک پہنچا تھا، تاکہ اسرائیلی ایجنٹ قوت جس کو قوات الکتائب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کی مدد سے بیروت پہنچا جا سکے۔
3۔ بالکل یہی کام اس وقت حدیدہ شہر میں ہو رہا ہے، کیونکہ عرب اتحادی افواج نے انتہائی شدت کے ساتھ یمنی فوج، انصار اللہ اور عوامی رضا کار فوج کے ٹھکانوں پر بری بحری اور فضائی بمباری شروع کردی،بری دشمن فوجی دستوں کو شہر کے قریب آنے دیا گیا، جہاں گھات لگا کر ٹینک شکن اسحلے سے استقبال کیا گیا، جس کے نتیجے میں عرب اتحادی افواج کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا، ٹینکوں اور توپوں پر مشتمل مکمل فوجی دستہ تباہ کیا گیا، کئی کرائے کے قاتل قتل زخمی اور گرفتار ہوئے، دوسری طرف ساحل سمندر پر بحری بیڑے کے ذریعے سے فوجی دستوں کو اتارنے کا عمل بری طرح ناکام بنا دیا گیا، جس کے نتیجے میں امارات کے ایک بحری بیڑے کو تباہ کردیا گیا، جس کا نتیجہ کئی کرائے کے قاتل دریا برد ہوئے۔
4۔ اور جو لبنان کے خلدہ شہر میں 1982 میں اسرائیلی جارحیت کا انجام ہوا، بالکل وہی انجام عرب اتحادی افواج کا حدیدہ شہر پر حالیہ جارحیت کا ہوا، جارحیت کی منصوبہ بندی کرنے والے بھی وہی استعماری قوتیں اور مزاحمت کرنے والے بھی وہی اللہ پر یقین کرنے والے مزاحمتی محور کے بہادر بیٹے۔حدیدہ شہر پر حالیہ جارحیت کا حکمت ودانائی اور عزم حوصلے کے ساتھ مزاحمت کا نتیجہ:عربی اتحادی افواج کے فوجی دستوں کا استدراج اور محاصرہ اور شدید پٹائی،ٹینک شکن اسلحے سے لیس ہوکر مختلف علاقوں میں گھات لگا کر حملہ، جس کی وجہ سے ایک ٹینک بھی نہ بچ سکا،امدادی رستوں کو کاٹ دیا گیا،الفازہ کے محاذ پر جارح فوج کے ایک دن میں 13 ٹینک تباہ کر دئے گئے،عرب اتحادی افواج کے متکبرانہ عزائم کو بری طرح ناکام بنا دیا گیا،عرب اتحادی افواج کو جو جدید اسلحے کی موجودگی اور فضائی برتری حاصل تھی، اس برتری کو اس بدترین شکست کے ذریعے بے اثر کردیا گیا، کیونکہ عرب اتحادی افواج کے فوجی دستے دریہمی نامی علاقے میں شدید محاصرے کا سامنا کر رہے ہیں، اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو یقیناً اس کا حتمی نتیجہ عرب اتحادی افواج کی مکمل شکست اور بری طرح ناکامی ہے، اس کے باجود کہ ان افواج ہر حوالے سے برتری حاصل ہے، اس فوجی برتری میں اسرائیلی غاصب فوج کے ایف35 جٹ طیارے بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ یمن کے بہادر بیٹوں کی طرف سے یمن ساخت کے میزائیلوں سے سعودی عرب کے کئی شہروں میں عسکری اہداف کو نشانہ بنانا، اسی سلسلے میں تازہ حملہ توشکا نامی میزائیل کے ذریعے سے 14 جون 2018 کو نجران شہر پہ تھا جس کے نتیجے میں دسیوں سعودی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے۔یہ امریکہ کے لئے بہت سخت وقت ہے، وہ کوشش کر رہا ہے کہ دوبارہ سے اپنی ہیبت اور دھاک بٹھا سکے، لیکن ہم اس وقت جیت کے زمانے میں جی رہے ہیں، جو کہ زندہ اور بہادر لوگوں کا زمانہ ہے، اس زمانے میں اس مزاحمتی جنگ کی بری اور بحری اور ان شاء اللہ بہت جلد فضائی قیادت یمن کے بہادر بیٹوں کے ہاتھ میں ہے۔ابھی تو اللہ کا فضل ہے اور ہم بہت اچھی حالت میں ہیں اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو۔(ترجمہ: محمد اشفاق دمشق سوریا)
The post امریکہ کی ناکام جارحیت appeared first on Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ.
from Iblagh News | حقائق تک رسائی اور ان کا ابلاغ https://ift.tt/2MGWnN2
via IFTTT


No comments:
Write komentar